• news

طالبان سے مذاکرات پر اتفاق‘ قیام امن پہلی ترجیح ہونی چاہیے‘ اے این پی کے تحت اے پی سی


اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز) عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام دہشت گردی کے خاتمہ، قیام امن کے لئے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قیمتی جانوں کا ضیاع کو روکنے کے لئے ملک میں امن کے قیام کی ضرورت ہے۔ ملک میں قیام امن کے لئے مذاکرات کو اولین ترجیح دی جائے۔ دہشت گردی کا پرامن حل ریاست پاکستان کے لئے آئین‘ قانون اور ملک کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کی حدود کے اندر ہونا چاہئے۔ یہ بات آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہی گئی جس پر 24 سیاسی و دینی جماعتوں کے رہنما¶ں اور نمائندوں نے دستخط کئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کرنے والی تمام سیاسی و مذہبی پارٹیاں عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی خان اور ان کی پارٹی کو امن کے قیام کے لئے کل جماعتی کانفرنس بلانے پر خراج تحسین پیش کرتی ہیں، کانفرنس کو آج کے سب سے اہم قومی مسئلے کے حل کے لئے مناسب اقدام سمجھتی ہیں۔ کانفرنس کی سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ عسکریت پسندی اور تشدد کا ناسور کسی ایک پارٹی‘ صوبے یا علاقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور اس ملک کی بقا‘ ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس مسئلے کے صحیح طور پر حل کرنے پر ہو گا‘ ملک کے اندر جمہوری نظام کا استحکام اس مسئلے کے حل میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس کے شرکا سمجھتے ہیں کہ یہ کانفرنس ایک نکتہ آغاز ہے جسے اے این پی دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھائے اور سیاسی پارٹیاں باہمی مشاورت کے ذریعے اگلے اقدامات تجویز کریں۔ کل جماعتی کانفرنس میں ان نکات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ -1امن کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے اور ملک میں استحکام‘ سماجی اور معاشی ترقی کی ضروریات پوری کی جا سکیں، -2جیسا کہ خون آلود دامن کو خون سے نہیں دھویا جا سکتا بلکہ پرامن مذاکرات کے پانی ہی سے خون کے دھبّے دھل سکتے ہیں اسی کے مصداق مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کو اولین ترجیح دی جائے، -3دہشت گردی کے مسئلے کے پرامن حل کو ریاست پاکستان کے آئین اور قانون اور ملک کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کی حدود کے اندر ہونا چاہئیے ۔ کل جماعتی کانفرنس فاٹا میں امن کے قیام کے لئے گرینڈ قبائلی جرگہ کی کوششوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے اور فاٹا کے عوام اور ان کے نمائندوں کو یقین دلاتی ہیں کہ کانفرنس میں شریک ساری جماعتیں امن کے قیام کے لئے ان کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس دہشت گردی میں پاکستانی شہداءکے ایصال ثواب کے لئے دعا کرتے ہوئے ان کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہے اور سیاسی قیادت اور کارکنوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کانفرنس مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ شہداءاور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کو امدادی پیکیج دیا جائے۔ اسی طرح امن و امان کی وجہ سے بے گھر ہوئے لوگوں کے مسائل پر توجہ دی جانی چاہئے اور ان علاقوں میں امن کے قیام کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ بے گھر ہوئے لوگ عزت و وقار کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندی اور تشدد کسی ایک پارٹی کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے، ملک میں امن و امان کا قیام ہونا چاہئے، ملکی ترقی و استحکام کے لئے دہشت گردی کے مسئلے کا حل ضروری ہے، دہشت گردی کے مسئلے کا حل ملکی خودمختاری کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے، دہشت گردی کے مسئلے کا حل آئین و قانون کے اندر ہونا چاہئے، قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بند ہونا چاہئے، مذاکرات کے ذریعے امن کا قیام پہلی ترجیح ہونی چاہئے، جمہوری نظام کا استحکام دہشت گردی کے حل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کے مسئلے کا حل خودمختاری کے تقاضو ں کے مطابق اور آئین و قانون کے اندر ہونا چاہئے۔ کانفرنس نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ملک میں امن و امان کا قیام لازمی ہے، قیمتی جانوں کا ضیاع بند ہونا چاہئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے آل پارٹیز کانفرنس ختم ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس قیام امن کے لئے ابتدا ہے، آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ پاکستان کے ہر ادارے کو پہنچائیں گے، تمام جماعتیں مشاورت کے بعد طے کی گئی تجاویز سے ہمیں آگاہ کریں، جے یو آئی (ف) نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ہم جے یو آئی (ف) کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ بی بی سی کے مطابق اعلامیہ میں دہشت گردی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے حل کے لئے تمام جماعتوں کو مل کر جدوجہد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ اسفندیار ولی نے کہا کہ انتخابی سیاست اور تفہیم کے ماحول میں ملک کی 24 سیاسی و دینی جماعتوں کا ایک قومی مسئلہ کے حل کے لئے مل بیٹھنا نیک شگون ہے، ہم نے نئی روایت ڈالی ہے۔ مسودہ پہلے سے تیارنہیں کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک قومی مسئلہ پر اکٹھی بیٹھی ہیں۔ اے پی سی شروعات ہے یہ انتہا اور اختتام نہیں جب بھی کبھی ضرورت محسوس ہوئی ہم کسی اور جماعت کے پاس جانے کے لئے تیار ہیں، ہم تمام ریاستی اداروں تک اے پی سی کا اعلامیہ پہنچائیں گے۔ کانفرنس کی شرکا جماعتیں اپنی اپنی جماعتوں میں اعلامیہ کو زیر بحث لا کر اس بارے میں اپنی آراءسے آگاہ کریں گی۔ مشترکہ اعلامیہ پر ہر سیاسی جماعت کے دستخط ہیں اس سے کوئی جماعت انحراف نہیں کر سکتی ہم نے جو دستاویز تیار کی ہے وہ اگلی حکومت کو دے رہے ہیں جو حکومت اس پر عمل نہیں کرے گی ہم اس کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکیں گے جب ان سے پوچھا گیا کہ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عمل نہیں ہوا اس اعلامیہ پر کس حد تک عمل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے جتنے خطرات ہیں اس سے زیادہ خطرات کیا ہو سکتے ہیں اس مسئلہ کو حل ہونا چاہئے ہم کسی خوف کی بنا پر مذاکرات نہیں کر رہے ہم کوئی ڈرنے والے نہیں چاروں اکائیوں کے پاس اس اعلامیہ کی اونر شپ ہے اس مشترکہ اعلامیہ کے پارلیمنٹ سے باہر بھی لوگ حصہ دار بن گئے ہیں۔ دریں اثناءاے پی سی اعلامیہ پر غور کیلئے طالبان تنظیموں کا اجلاس آج طلب کر لیا گیا۔ اجلاس کے بعد وہ آج دوپہر ایک بجے اپنے م¶قف کا اعلان کریں گے۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طالبان سے مذاکرات پر متفق ہو گئی ہیں۔ اے پی سی میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) سمیت 24 سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ کل جماعتی کانفرنس میں امن کے عمل کی کامیابی کے لئے ”اعتماد سازی“ کو ناگزیر قرار دیا گیا۔ کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ قیام امن کے لیے فریقین خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کریں۔ آئین اور قانون کے تحت ہی مذاکراتی عمل کی کامیابی اور پاسداری ممکن ہو سکے گی۔ طالبان کی جانب سے بات چیت کی پیشکش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ قبائل کو قومی دھارے میں لانے کے لئے وہاں سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ دینی و بعض سیاسی جماعتوں نے قومی سلامتی کے معاملے پر پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ دینی اور بعض اہم سیاسی جماعتوں نے مسئلے کے حل کے لئے پالیسیوں پر نظرثانی کی تجویز کا اعادہ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی نے واضح کیا کہ قیام امن کے سلسلے میں قومی تجاویز کو کسی کو سبوتاژ کرنے دیں گے نہ امریکہ پاکستان کے سیاسی قائدین کے متفقہ ایجنڈے پر اثرانداز ہو سکے گا۔ مسلم لیگ (ن) نے امن کے عمل کو نگران حکومت میں جاری رکھنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کی پیشکش کے حوالے سے حکومت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کانفرنس میں قبائلی علاقوں اور خیبر پی کے کے عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ جے یو آئی (ف) کی کوششوں سے قائم قبائلی جرگہ کے ارکان کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے۔ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماﺅں نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ کانفرنس میں شریک دینی جماعتوں نے قبائلی جرگہ کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کی تجویز دی۔ ان کیمرہ آل پارٹیز کانفرنس اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کی صدارت میں ہوئی جو دن بھر جاری رہی، کانفرنس کے دو سیشن ہوئے۔ کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ ، جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی، (ق) لیگ، قومی وطن پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (س)، عوامی تحریک، سندھ یونائیٹڈ فرنٹ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت 24 جماعتوں کے رہنماﺅں قائد حزب اختلاف چودھری نثارعلی خان، محمود خان اچکزئی، اقبال ظفر جھگڑا، ڈاکٹر فاروق ستار، مولانا عبدالغفور حیدری، نذر محمد گوندل، اکرم خان درانی، مولانا عطاءالرحمن، مولانا سمیع الحق، چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، انیسہ زیب طاہر خیلی، حاجی عدیل، حاجی غلام احمد بلور، شاہی سید، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور دیگر شامل تھے نے شرکت کی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے مقاصد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ دہشت گردی سے پورا ملک کا مسئلہ ہے ، اس سے نظر چرانے کی بجائے حل تلاش کرنا ہو گا۔ الیکشن کا انعقاد قریب ہے لیکن دہشت گردی کا مسئلہ انتخابات کے ساتھ ختم ہونے والا نہیں۔ حکومتیں آئیں گی، جائیں گی، عوام کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اتفاق رائے ضروی ہے، امن کے لئے تمام جماعتوں سے تجاویز لیں گے۔ ہم سیاسی قائدین کی اجتماعی دانش سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے کہا کہ آئین، قانون اور ریاستی رٹ تسلیم کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ فضل کریم نے کہا کہ مذاکرات سے قبل طالبان سے پوچھا جائے کیا وہ اسلحہ رکھیں گے یا نہیں تاہم قیام امن کے لئے مخلص طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔کل جماعتی کانفرنس میں شریک دینی جماعتوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے اور قیام امن کے لئے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے الگ ہونے کا مطالبہ کردیا۔ دینی جماعتوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے پارلیمنٹ نے روڈ میپ دیا تھا۔ عملدرآمد کے لئے حکمران سنجیدگی اختیار نہیں کرتے۔ مسئلہ کانفرنسوں اور فتوو¿ں سے نہیں پالیسیوں پر نظرثانی سے حل ہو گا۔ اس بارے میں پارلیمنٹ رہنما اصول متعین کر چکی ہے۔ امریکہ سے 40 ہزار قیمتی جانوں کے ضیاع پر تاوان طلب کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کانفرنس میں شرکت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امن پر ہم سب متفق ہیں مسئلہ پالیسیوں میں تبدیلیوں کا ہے ۔ کوئی بھی سنجیدہ نظر نہیں آتا، حکومت اپنی مدت مکمل کرنے والی ہے اس وقت کی کانفرنس بے وقت کی راگنی ہے۔ پارلیمنٹ نے سفارشات دی تھیں ان پر عملدرآمد میں کیا رکاوٹ ہے۔ ہم پارلیمنٹ میں رہیں کمیٹیاں بھی بنیں مگر حکمران طبقہ عملدرآمد کے بارے میں سنجیدگی اختیار نہیں کرتا ۔ مسئلہ کانفرنسوں یا فتوو¿ں سے حل نہیں ہو گا۔ دہشت گردی وانتہا پسندی کے محرک کے عوامل کا جائزہ لینا ہو گا کنوئیں سے سو ڈول پانی بھی نکال دیں جب تک کنوئیں کو نجاست سے پاک نہیں کیا جائے گا پانی صاف نہیں ہو گا۔ اصل مسئلہ غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کا ہے ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے اور فوری طو ر پر امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ سے خود کو الگ کرلینا چاہیے یہی پارلیمنٹ کی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا تھا۔ امریکہ سے فوراً 40 ہزار جاںبحق افراد کا تاوان طلب کرنا چاہئے کیونکہ یہ لوگ امریکی جنگ کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ یہی ہے کہ پاکستان کو نام نہاد دہشت گردی کی جنگ سے الگ کیا جائے ۔ نیک نیتی سے آگے بڑھنا ہو گا عوام ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا انہی قرار دادوں میں مذاکرات کے حوالے سے روڈ میپ دیا گیا تھا جب تک دہشت گردی کی جنگ سے الگ نہیں ہوں گے امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ شدت پسندوں سے بھی بات کرنا ہو گی ۔ ناراض لوگوں کو منانا ہو گا اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الگ ہو جائے تو داخلی طورپر 90 فیصد مسائل ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے سیاسی کمیٹی بننی چاہئے۔ تمام سٹیک ہولڈرز سے بات ہونی چاہئے۔ عالمی طاقتیں طالبان سے بھی مذاکرات کر رہی ہیں اس حوالے سے پیش رفت پاکستان کو آگاہ رکھنا ضروری ہے۔ اسمبلیاں جانے والی ہیں۔ ایسے موقع پر اس طرح کی کانفرنس ہو رہی ہے۔ نگران حکومت آنے والی ہے۔ 2014ءمیں امریکہ نے افغانستان سے بے دخل ہونا ہے ۔ لگتا ہے کہ امریکہ بھی جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ حکومت پاکستان کو اپنی پالیسی واضح کرنا چاہئے۔ اسلام آباد سے وقائع نگار خصوصی کے مطابق مسلم لےگ (ن) کے پارلےمانی لےڈر و قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش مثبت اقدام قرار دےا اور کہا کہ اس پےشکش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے طالبان سے مذاکرات کے لئے مسلم لیگ (ن) کی کوئی شرائط نہیں۔ موجودہ حکومت کی ضمانت کسی اور نے کیا دینی ہے اس کی ضمانت تو پیپلز پارٹی کے اپنے لوگ دینے کیلئے تیار نہیں‘ نوازشریف موجودہ حکومت کے حوالے سے جواب پہلے ہی دے چکے ہیں ملک میں امن و امان کی ابتر صورت حال کے ذمہ دار پرویز مشرف ہیں لیکن موجودہ حکومت نے بھی پانچ سالوں میں صورت حال بہتر بنانے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کی۔ مسلم لیگ (ن) کسی بھی جگہ کسی بھی جماعت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے لیکن مذاکرات آئین و قانون کے تحت ہونے چاہئیں۔ جے یو آئی (ف) سمیت جس بھی جماعت نے ان مقاصد کو آگے بڑھایا ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد بننے والی نگران حکومت کے دور میں بھی یہ عمل جاری رہنا چاہئے۔ مشرف کی پالیسیو ں کے باعث ہی آج پاکستان تباہی و بربادی سے دوچار ہے جبکہ موجودہ حکومت نے بھی اپنے پانچ سالہ دور کے دوران کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔ مشرف کی عطا کردہ تشدد کی لہر سے نجات دلانا ہو گی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنونیئر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کراچی کے حالات کے بگاڑ میں 90 فیصد ہاتھ دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور جرائم مافیا کے گٹھ جوڑ کا ہے، کراچی پاکستان کی علامت ہے، کراچی مستحکم ہو گا تو پاکستان مستحکم ہو گا۔ اے این پی کی یہ کاوش اچھا اقدام ہے، مک میں امن و امان و استحکام کے لئے متفقہ طور پر مرحلہ وار پروگرام مرتب کیا جائے، دہشت گرد اور انتہا پسند بھی بات چیت کی بات کر رہے ہیں، اس عمل کو بامقصد بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ مولانا حیدری نے کہا کہ اے پی سی اچھا اقدام ہے۔ سید ساجد نقوی نے کہا کہ مذاکرات سے ہی دہشت گردی کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ وزیر اطلاعات خیبر پی کے میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس اعلامیہ عوامی رائے کی ترجمانی کرتا ہے، فوجی قیادت کو بھی اعلامیے پر اعتماد میں لیں گے۔
اے پی سی / سیاسی قائدین

ای پیپر-دی نیشن