سینٹ قومی اسمبلی: سانحہ کوئٹہ کیخلاف پوزیشن اے این پی کا احتجاج‘ حکومت نے مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ مان لیا
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ ایجنسیاں) حکومت نے اپوزیشن کے مطالبے پر سانحہ کوئٹہ سمیت ملک کی مجموعی امن وامان کی صورتحال پر مشترکہ اجلاس جلد طلب کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن جماعتوں اور اے این پی نے سانحہ کوئٹہ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیاہزارہ برادری یا شیعہ پاکستانی نہیں ہیں؟ بابائے قوم بھی شیعہ مسلک سے تھے آج ہم ان کے سامنے شرمندہ ہیں، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ سمیت کالعدم جماعتوں کو کیوں کھلی چھوٹ دی گئی ہے ان کےخلاف کارروائی کی جائے، انتہا پسندی کے خاتمے کےلئے علمائے کرام نام نہاد جہاد کے خلاف فتویٰ جاری کریں، گورنربلوچستان و انتظامیہ ناکام ہوچکی فوری تبدیل کیا جائے، فوج بلائی جائے وہی معاملات کنٹرول کرسکتی ہے، خواجہ آصف، خورشید شاہ، عبدالقادر بلوچ، وسیم اختر، بہادر خان سہیڑ، چوہدری برجیس، ظفر بیگ بھٹنی، مولوی عصمت اللہ سمیت دیگر نے شدید احتجاج کیا جبکہ مسلم لیگ ن، ایم کیو اور فاٹا ارکان قومی اسمبلی سے سانحہ کوئٹہ کے خلاف احتجاجاً واک آﺅٹ کرگئے۔ قبل ازیں اجلاس کی معمول کی کارروائی معطل کرکے سانحہ کوئٹہ پر بحث کرائی گئی۔ اس موقع پر متحدہ کے وسیم اختر نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا سانحہ کوئٹہ پر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ انہوںنے کہا دہشت گردوں کا ہیڈکوارٹر پنجاب ہے ان کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہونی چاہئے۔ اس موقع پر حکومتی چیف وہیپ خورشید شاہ نے کہا حکومت کو حالات کی سنگینی کا احساس ہے بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو ختم کرکے گورنر راج لگایا حکومت ان حالات پر خاموش نہیں اور میتوں کی تدفین کا کام شروع ہو گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو سیاست سے بالا تر ہوکر دیکھنا ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے نصیر بھٹہ نے کہا گورنر بلوچستان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے حکومت دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہے۔ صوبہ پنجاب میں حکومت کی رٹ ہے، دہشت گردوں کو کھلا نہیں چھوڑا ہوا۔ قلیگ کے بہادر خان سیہڑ نے کہا بلوچستان میں لوگ سراپا احتجاج ہیں، پنجاب میںضمنی انتخابات جیتنے کےلئے جیلوں سے دہشت گردوں کو نکال کر سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کیاگیا۔ ملک میں مدرسوں کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپا رٹی کے اعجاز ورک نے کہا دہشت گردی پر قابو پانے میں ملک کی انٹیلی جنس ادارے ناکام ہوچکے ہیں، آج بلوچستان میں فوج کو لانے کی باتیں کی جارہی ہیں حالانکہ مسائل کا حل جمہوری حکومت میں ہے۔ مسلم لیگ ن کے برجیس طاہر نے کہا گورنر بلوچستان سمیت صوبائی انتظامیہ کو تبدیل کیا جائے وہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ آصف علی زرداری اربوں روپے کے گھروں میں عیش سے بیٹھے ہیں مگر عوام کی کوئی فکر نہیں۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) احتجاجاً واک آﺅٹ کرگئی۔ جمعیت علمائے اسلام ف نظریاتی کے مولوی عصمت اللہ نے کہا سانحہ کوئٹہ کا دلخراش واقعہ ہوا ہے۔ جو قوم احکام الٰہی کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہےں پھر اس قوم میں خیر کی جگہ نہیں ہوتی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حمایت اللہ مایار نے کہا اس سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ صرف بلوچستان نہیں پورا ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہاہے۔ صرف بیانات نہ دیئے جائیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ لشکر جھنگوی، جماعة الدعوة، لشکر طیبہ اور جیش محمد کے دفاتر کیوں پنجاب میں کھلے ہوئے ہیں ان پر کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی نام نہاد جہاد کو ختم کیا جائے۔ کالعدم تنظیموں پر دوسرے نام پر بھی پابندی لگائی جائے۔ ان بیرونی فنڈنگ پر بھی پابندی لگائی جائے۔ پیپلز پارٹی کی جسٹس (ر) فخرالنساءکھوکھر نے کہا نفرتوں اور فرقہ واریت کے فتوے دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف نے کہا وزیراعظم کی یقین دہانی کے باوجود ہزارہ برادری اور شیعہ مسلک کے لوگوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ کیا شیعہ قوم ہماری دشمن ہے؟ حالانکہ قائداعظمؒ بھی شیعہ مسلک سے تھے اور بابائے قوم ہیں، آج ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے اور سیکورٹی اداروں سے جواب طلب کیا جائے کہ آج ہر پاکستانی کیوں غیر محفوظ ہے۔ ہم نظریہ¿ پاکستان سے انحراف کرچکے ہیں صرف چند ہزار اشراف کے مفادات کی جنگ لڑی جارہی ہے، پانچ سال میں اس ایوان نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا۔ بعدازاں ایم کیو ایم نے اس مطالبے کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ نہ صرف مشترکہ اجلاس بلایا جائے بلکہ عسکری قوتوں پر دباﺅ ڈالا جائے کہ لشکری جھنگوی کےخلاف آپریشن کیا جائے۔ بعد ازاں خورشید شاہ نے ایوان میں یقین دہانی کرائی پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس اسی ہفتے یا اگلے ہفتے طلب کیا جائےگا جس پر پینل آف چیئر نے کہا بہتر ہے اوپن اجلاس بلایا جائے کیونکہ کوئی چیز ان کیمرہ نہیں رہتی۔ فاٹا کے رکن ظفر بیگ بھٹی نے سانحہ بلوچستان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا دہشت گردی کو ختم کرنے کےلئے اس کے درخت کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ انہوں نے کہا ہم نے کہا تھا ضیاءالحق کا نام نہاد جہاد نہیں بلکہ فساد تھا جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
اسلام آباد (نامہ نگار + آن لائن) ایوان بالا میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے بلوچستان میں ہزارہ قبیلے پر حملوں سمیت ملک میں دہشت گردی کے واقعات پر بریفنگ لینے کیلئے ان کیمرہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا‘ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے قائد ایوان جہانگیر بدر کو وزیراعظم کیساتھ مشاورت کی ہدایت کر دی۔ ارکان سینٹ نے سیکرٹریز داخلہ اور دفاع سمیت خفیہ اداروں کے سربراہان کو ایوان میں طلب کرنے کی سفارش کی۔ اجلاس میں متحدہ کے سینیٹر طاہر مشہدی نے بلوچستان‘ پشاور‘ لاہور اور کراچی میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور بالخصوص کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے پر حملے کیخلاف تحریک التواءپیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔ تحریک التواءپر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا دہشت گردی نے ہمارے سیاسی نظام کو کنٹرول کررکھا ہے۔ یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ امن و امان کو یقینی بنائے۔ وزیروں کی فوج ہے مگر ایک وزیر بھی سوگوار خاندانوں کے پاس اظہار ہمدردی کیلئے نہیں گیا۔ یہ ہماری قوم کیساتھ سنگین ظلم ہے۔ حکومت نے کسی واقعہ پر مثبت کارروائی نہیں کی۔ وزیر داخلہ ایوان میں آکر جواب دیں کہ کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ ہمارے وزیر ایس ایچ او سے ڈرتے ہیں انہیں ووٹوں اور الیکشن کیلئے پولیس کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ایف سی کے افسر کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ انٹیلی جنس اداروں کو اپنی سیاست بچانے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ آج تک جتنے بھی دہشت گرد پکڑے گئے انہیں عدالتوں نے چھوڑ دیا۔ عدالتوں کو چاہئے کہ مجرموں کو قرار واقعی سزائیں سنائیں۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ملک رفیق رجوانہ نے کہا پارلیمنٹ ریت اور سرئیے سے چنی ہوئی عمارت نظر آرہی ہے۔ اس کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ صرف حاضری لگارہے ہیں اور فقط تقریریں کرکے چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں حکومت اور انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک صرف ڈراتے ہیں۔ ایوان آج تک ان کیمرا بریفنگ کے انتظار میں ہے۔ اس بحث کو سمیٹنے پر کوئی حل بھی سامنے آنا چاہئے صرف تقریروں سے کام نہیں چلے گا۔ ایک کمیٹی بنائی جائے اور بلوچستان کے حالات پر ان کیمرا بریفنگ دی جائے جس میں تمام ذمہ دار افسروں کو بلایا جائے۔ سینیٹر میر حاصل بزنجو نے کہا مذہبی فرقہ واریت جیسی کوئی چیز پاکستان کی سرزمین پر 1980ءکی دہائی میں ہم نے مسلط کی۔ حکمرانوں نے چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کیلئے ملک کے ہزاروں لوگوں کی جانیں گنوائیں‘ افغان جنگ جیتنے کیلئے اپنے ملک کو آگ لگالی۔ اس بحث کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگا جب تک بلوچستان میں کام کرنے والی ایجنسیوں کو ایوان میں بلاکر پوچھا نہ جائے گا۔ ایوان اس مسئلے پر وزارت داخلہ کو لکھے‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بلائے اور سختی سے پوچھے یہ کیوں ہورہا ہے۔ اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا یہی حالات رہے تو ہماری پارلیمنٹ بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ حکومت اس مسئلے کا حل بتائے۔ پشاور‘ لاہور‘ کراچی اور کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس کا جواب ہے۔ ہم طالبان سے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر بات کرنا چاہتے ہیں مگر طالبان بات ہی کرنا نہیں چاہتے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا مطلب یہ ہے طالبان مذاکرات پر راضی نہیں۔ جب تک پنجاب سے آواز نہیں آتی ہماری فوج اور انٹیلی جنس ادارے حرکت میں نہیں آئیں گے۔ پاکستانی فوج سری لنکا میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کام کرسکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں لڑ سکتی۔ پاکستان میں افغان طالبان‘ پاکستانی طالبان‘ پنجابی طالبان‘ لشکر جھنگوی‘ لشکر جھنگوی العالمی اور لشکر طیبہ جیسے گروپ سرگرم ہیں۔ سینٹ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایجنسیوں کے سربراہان اور سیکرٹریز داخلہ اور دفاع کو بلاکر سختی سے پوچھے۔ سینیٹر فرحت عباسی نے بھی ملک میں امن و امان کی عدم فراہمی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا حکومت دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات کرے شاید اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا دہشت گرد قوتیں ملک میں طاقتور ہیں۔ جب تک صوبائی حکومتیں اور وفاق دستبردار نہیں ہوگا ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ خفیہ ادارے اپنے کردار میں نیک نیتی لائیں۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کوئٹہ میں دہشت گردی کے پیچھے چھپے عزائم کو بے نقاب کیا جائے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک ایوان میں تشریف لائیں اور بتائیں کہ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو بقول ان کے ملک کو توڑنا چاہتی ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے خاطر خواہ نتائج اس وقت تک اخذ نہیں کئے جاسکتے جب تک حقائق عوام یا عوامی نمائندوں کے سامنے نہیں رکھے جائیں گے۔ کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں مگر افسوس ایوان صدر میں تقریب حلف برداری کی جارہی تھی۔ چیئرمین سینٹ‘ وزارت داخلہ اور دفاع کو ہدایت دے اور ہمیں تاریخ دیں وہ کب ایوان کو بریفنگ دے رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے کہا قائد ایوان وزیراعظم کو قائد حزب اختلاف کے تحفظات سے آگاہ کریں۔ بعدازاں پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کوئٹہ اور ملک کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی نہ روکی گئی تو انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی مکمل نااہلی میں تبدیل ہوجائے گی۔ کوئٹہ میں لشکر جھنگوی کے دو افراد پکڑے گئے تھے جنہیں انسداد دہست گردی کی عدالت نے 2003ءمیں سزائے موت سنائی تھی جو کوئٹہ کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے میں قید تھے مگر جنوری 2008ءمیں پراسرار طریقے سے یہ دونوں افراد جیل سے فرار ہوگئے اور پھر کوئٹہ اور ملک کے دوسرے علاقوں میں فرقہ واریت کی ایک نئی لہر شروع ہوگئی۔ وزیر داخلہ جب ایوان کو بریف کریں تو یہ بھی بتائیں یہ دونوں افراد کیسے فرار ہوئے اور اب وہ کہاں ہیں اور دوبارہ گرفتار کیوں نہ کئے گئے۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا پاکستان میں چند غیر ممالک دہشت گردی کرا رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے دہشت گردوں کو فراہم ہونے والی رقوم کی ترسیل کو روکے اس سے ان کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ بعدازاں پیپلزپارٹی کی سینیٹر ثریا امیرالدین نے بھی کوئٹہ سانحہ کے سوگواران کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا حکومت ہزارہ کمیونٹی کے مطالبات جلد از جلد منظور کرے۔ دریں اثناءاجلاس آج (بدھ) سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ قبل ازیں سینٹ سے جمعیت علماء اسلام (ف) نے سانحہ کوئٹہ کے خلاف واک آﺅٹ کیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے تحریک التوا پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے بلوچستان، کراچی اور خیبر پی کے کی صورتحال پر اظہار خیال کیا اور بعدازاں جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے ارکان کے ساتھ ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے۔