گوادر بندگاہ....چین کے حوالے
پاکستان نے گوادر کا باضابطہ انتظام گزشتہ پیر کے دن سے عوامی جمہوریہ چین کے حوالے کر دیا ہے۔ صدر مشرف کے دور اقتدار میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے گوادر کی بندر گاہ سنگا پور کی ایک کمپنی کو دی لیکن سنگا پور کی یہ کمپنی اس بندر گاہ کو تجارتی مقاصد کے لیے متحرک کرنے میں ناکام رہی۔ راز دانوں کا کہنا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ سنگا پور کے حوالے کروانے میں امریکی آشیرباد شامل تھی۔اس کا مقصد محض اور محض چین کو گوادر سے دور رکھنا تھا۔ اس عظیم قومی منصوبے کو قابل عمل بنانے کے معاملے کو قومی مفاد کی بجائے اس دور کے حکومتی مفاد (اپنی حکومت کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنا) کو سامنے رکھ کر کیا گیا۔ایک دہائی سے زائد عرصے تک پاکستان اس اہم ترین منصوبے سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اس کا حساب کون دے گا اور یہ حساب کس طرح لیا جائے گا؟ اس کا جواب عوام مانگ رہے ہیں۔اس مجرمانہ فعل کے مرتکب افراد کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئیے۔گوادر تاریخی اعتبار سے کئی دلچسپ حقائق لیے ہوئے ہے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے قلات کے نواب نے گوادر کو مسقط کے ایک شہزادے کو (جو ان کا داماد بنا) اپنی بیٹی کے جہیز میں دے دیا تھا۔ 1958میں بھارت گوادر کو مسقط سے خریدنا چاہتا تھا لیکن پاکستان نے جغرافیائی اہمیت کی بناءپر ایسا نہ ہونے دیا۔ وزیر اعظم فیروز خان نون کے زمانے میں گوادر کو مسقط سے خرید لیا گیا اور یو ںگوادر دوبارہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ پاکستان ان دنوں جن حالات اور مشکلات کا شکار ہے اس پس منظر میں گوادر کی بندر گاہ کا انتظام چین کے حوالے کرنا ایک خوش آئند اور احسن قد م ہے۔ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن معاہدہ اور گوادرکا انتظام چین کے حوالے کرنا موجودہ حکومت کے دو ایسے فیصلے ہیں جو ہماری معیشت کو مستقبل میں مستحکم کرنے میں کلیدی کردار اد ا کر سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان منصوبوں پر عمل در آمد ترجیحی بنیادوں پر ہو۔پاک چین معاہدے کی رو سے گوادر کی بندر گاہ پاکستان کی ملکیت ہی رہے گی۔ چین کی کمپنی صرف اس کا انتظام و انصرام کرے گی اور جو منافع حاصل ہو گا اس میں وہ بھی حصہ دار ہو گی۔ چینی کمپنی گوادر میں فری اکنامک زون بھی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ مواصلاتی نیٹ ورک بنانے میں بھی معاونت کرے گا۔ گوادر پاکستان میں سمندری حیات مچھلی اور جھینگوں کا مرکز ہے۔ گوادر سے حاصل ہونے والی مچھلی اور جھینگے میںدنیا بھر کے شائقین بڑی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہاں پائی جانے والی ٹونا مچھلی"TUNA FISH"بین الااقوامی مارکیٹ میں فروحت ہونے والی انتہائی قیمتی مچھلی ہے۔ خاص طور پر جاپان اور گلف کی ریاستوں میں اس مچھلی کی بڑی مانگ ہے۔ اس مچھلی کو یخ بستہ Containors میں ڈال کر کراچی کے راستے بحری جہازوں کے ذریعے جاپان اور دوسرے ممالک بھیجا جاتا ہے جہاں اس کی Processingکے بعد" "Tin Pack© کر کے انتہائی قیمت پر عالمی مارکیٹ میں فروحت کیا جاتا ہے۔ گوادر کی بندر گاہ سے حاصل ہونے والی مچھلی اور جھینگوں کو تجارتی بنیادوں پر محفوظ بنانے کے لیے Execusive Economic Zone میں Processing اور Packingکی سہولتیں فراہم کرنے کے منصوبے پر عمل در آمد بھی ہونا چاہئیے۔ اس کی تکمیل سے ماہی گیری کی صنعت کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری سے پاکستان کو لاکھوں ڈالرز بھی حاصل ہوںگے۔مجھے دو بار گوادر شہر اور بندر گاہ کا تعمیراتی کام دیکھنے کا موقع ملا۔ گوادر میں شام کا منظر اپنی کشش اور دلفریبی کی وجہ سے انتہائی منفرد ہے۔گوادر کا نیلگوں صاف شفاف پانی اور حد نظر تک پھیلے ہوئے سمندر کے پس منظر میں غروب آفتاب کا منظر بھلائے نہیں بھولتا، عصر اور مغرب کی نماز کے درمیانی وقفے میں گوادر شہر کی ساحلی پٹی پر ماہی گیر اپنی دن بھر کی کمائی ساحلی ریت پر ڈال دیتے ہیں۔ ہر کشتی سے سینکڑوں من مچھلی اور جھینگے ساحل سمندر پرڈھیر کر دئیے جاتے ہیں۔ ملکی اور بین الااقوامی تاجر ان کی خرید و فروخت میں مصروف نظر آتے ہیں پاکستان میں سالانہ6سے8لاکھ میٹرک ٹن سمندری مچھلی اور جھینگے حاصل ہوتے ہیں جن میں سے 70فی صد پیداوار سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سے حاصل ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق گوادر اور کراچی کے ساحل سے 80ملین ڈالرز کے جھینگے حاصل کیے جاتے ہیں۔ سنگا پور، گلف،یورپی یونین،جاپان اور امریکہ سبھی گوادر کے ساحل سے حاصل ہونے والے جھینگوں کی تجارت میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس صنعت میں سرمایہ کاری کے لیے شریک کار بننے کے خواہشمند ہیں۔عوام یہ توقع کرتے ہیں کہ گوادر کی بندر گاہ کو چین کے حوالے کرنے سے بلوچستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔جس سے نہ صرف یہ کہ بلوچستان کے عوام بلکہ مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت کو بڑا سہارا ملے گا۔ چین اپنی ضرورت کا ساٹھ فی تیل خلیجی ممالک سے درآمد کرتا ہے ۔ گوادر کی بندر کا انتظام سنبھالنے سے چین کو خلیجی ممالک سے تیل کے حصول اور بحری تجارت میں بڑی آسانی ہو گی۔چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اور زمینی اعتبار سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہونے کے باوجود گرم پانیوں کی بندر گاہ سے محروم ہے۔ چین کو بحری تجارت کے لیے شنگھائی کی بندر گاہ کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔چین کے تجارتی جہازوں کو سامان لانے اور لے جانے کے لیے سولہ ہزار کلو میٹر تک کا سفر دو سے تین ماہ میں طے کرنا پڑتا ہے۔سفر کے دوران تجارتی جہازوں کو بحری قزاقوں، متحارب سیاسی قوتوں اور شدید موسموں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ گوادر کے گرم پانیوں سے چین کا تجارتی فاصلہ صرف ڈھائی سو کلو میٹر ہے اور گوادر کی بندرگاہ سارا سال کام کرتی ہے۔یہی وجہ سے کہ چین گوادر کی ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے جبکہ امریکہ اور بھارت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ چین گوادر تک نہ آ سکے۔مستقبل کی تجارت، صنعت اور جہاز رانی کے مرکز گوادر کی ترقی میں پاکستان کا خوشحال مستقبل بھی پوشیدہ ہے۔ اگر یہاں ترقی کی رفتار منصوبے کے مطابق جاری رہی تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان کی بحری تجارت تین گناہ بڑھ جائے گی،جو نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ ہمسایہ ممالک کی بحری تجارت میں بھی انقلابی تبدیلی کا باعث بنے گی۔مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع گوادر کو دوبئی کا متبادل تجارتی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گوادر کی بندر گاہ کئی اعتبار سے پاکستان اور چین کی معاشی اور دفاعی حکمت عملی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو یہ توفیق دے کہ وہ اس منصوبے کا ثمر خود بھی حاصل کریں اورکچھ حصہ پاکستانی عوام کو بھی دے سکیں۔