ہزاروں میں ایک ڈاکٹر علی حیدر اور ہزارہ برادری
میں جناح ہسپتال میں تھا کہ میرے ملازم انور مسیح کا بازو ٹوٹ گیا تھا۔ میں ڈاکٹر ضیاءباجوہ کے پاس تھا کہ مجھے ڈاکٹر علی حیدر کے قتل ہونے کی خبر ملی ساتھ میں چھوٹا بچہ بھی قتل ہو گیا۔ آرتھوپیڈک کے ڈاکٹر باجوہ اور ڈاکٹر چیمہ اس کی تعریف کر رہے تھے۔ وہ ڈاکٹر بھی بہت اعلیٰ تھا اور انسان بھی اچھا تھا۔ وہ افضل حیدر کا بھتیجا تھا۔ اس کا کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے کیا تعلق تھا؟ قاتلوں کو شاید خبر ہی نہ ہو کہ وہ کسے قتل کر رہے ہیں۔ انہیں تو کوئی ٹارگٹ دے دیا جاتا ہے۔ مرنے والے کو معلوم نہیں اسے کون قتل کر رہا ہے۔ یہ قتل عام کیا ہے۔ ایم ایس جناح ہسپتال ڈاکٹر فضل الرحمن بھی بہت افسردہ تھے۔ برادرم اظہر شاہ بھی بہت خوش اسلوبی سے ہسپتال کے معاملات میں دلچسپی لیتا ہے۔ وہ ڈاکٹر علی حیدر کو یاد کر رہا تھا۔ ڈاکٹر ضیاءباجوہ کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر علی حیدر مریضوں کا بہت خیال کرتا تھا۔ کم ڈاکٹر ہوتے ہیں کہ مریض ان سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ میری بھی ان سے سرسری ملاقات تھی۔ وہ بُھلا دینے والے ڈاکٹر نہیں تھے۔ آج کل ینگ ڈاکٹر سے مریض تنگ آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہسپتالوں میں بھی دہشت پھیلا رکھی ہے۔ کبھی کبھی وحشت بھی پھیلاتے ہیں۔
ڈاکٹر فضل صاحب نے بتایا کہ جب شہباز شریف ینگ ڈاکٹروں کے پاس گئے تو ڈاکٹر علی حیدر بھی وہاں تھے۔ معاملات فوری طور پر طے پا گئے جیسے ینگ ڈاکٹر صاحبان اسی انتظار میں تھے کہ ہمارے پاس شہباز شریف آئیں تو اپنے گھروں کو جائیں۔ میں اپنے عزیز ینگ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھا بلکہ ہوں۔ میں نے برادرم سلمان رفیق سے بھی بات کی کہ ڈاکٹروں کے معاملات ٹھیک کرو۔ اس دوران گوجرانوالہ کا واقعہ پیش آ گیا۔ مجھے شکایت ہے کہ ہماری بیوروکریسی خواہ مخواہ مسائل اور مشکلات پیدا کرتی ہے۔ میں بیوروکریسی کو براکریسی کہتا ہوں۔ انہوں نے اپنا سروس سٹرکچر تو ٹھیک رکھا ہوا ہے۔ کسی افسر کو گریڈ بائیس تک جانے میں نہ دیر لگتی ہے نہ مشکل پیش آتی ہے مگر دوسرے ملازم ان کے نزدیک ملزم کیوں ہیں۔ افسران سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ریاست پاکستان کے ملازم نہیں ہمارے نوکر ہیں۔ اسی لئے لوگ سرکاری ملازمت کو نوکری کہتے ہیں۔ وہ دراصل افسران کے ذاتی نوکر ہوتے ہیں۔
شہباز شریف ڈاکٹروں کے پاس گئے اور مسئلہ حل ہو گیا۔ وہ پہلے بھی تو جا سکتے تھے۔ افسران انہیں اچھے کاموں سے روکے رکھتے ہیں۔ اس طرح شوکت بسرا کو سیاست کرنے کا موقع تو نہ ملتا۔ صدر زرداری اپنے جیالے کے پاس چلے گئے مگر کسی بھوک ہڑتالی ڈاکٹر کے پاس نہ گئے۔ ینگ ڈاکٹر شوکت بسرا کے لئے تہمت بن گئے۔ میں حیران ہوں کہ ہڑتالی ڈاکٹروں کے پاس تحریک انصاف کے محمودالرشید کیا لینے گئے تھے۔ وہ بھی کچھ ایسا کرنے کہ عمران خان اس کے لئے ہسپتال جاتے۔ ہمارے سیاستدان ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں کو خیال رکھنا چاہئے کہ وہ سیاستدان نہ بنیں اور نہ سیاستدانوں کو کوئی فائدہ اٹھانے دیں۔ انہوں نے جس طرح وعدہ کیا کہ اب وہ ہڑتال نہ کریں۔ اپنے سینئرز کے ساتھ بدتمیزی نہ کریں اور مریضوں کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئیں۔ انہوں نے بھی سینئر ہونا ہے تو پھر ان کے جونیئر ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ سلوک اور بدسلوکی میں فرق ہونا چاہئے۔ کبھی استادوں کی ہڑتال میں طالب علموں کے نقصان کو محسوس نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹروں کی بلیک میلنگ خود ان کے اپنے حق میں نہیں ہے۔ میری گزارش محکمہ صحت سے ہے کہ ایک دفعہ تمام معاملات کو طے کر لیا جائے تو یہ نوبت نہ آئے گی۔ آج کل لوگ اپنی بات منوانے کے لئے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں۔ اگر احتجاج کے بغیر احتیاج پوری ہو جائے تو لوگ کیوں مظاہرے کریں۔ دھرنے دیں۔ اب یہ ملک دھرنوں کا دیس بن گیا ہے۔
جو کچھ کوئٹہ میں ہوا ہے ایک مہینے کے دوران دوسری بار لاشوں کا ”بازار“ لگا ہے۔ حکمرانوں میں کچھ سیاسی اور جمہوری غیرت ہوتی تو وہ مستعفی ہو جاتے۔ گورنر مگسی کو بھی خیال نہیں آیا۔ وزیراعظم رینٹل اور کائرہ صاحب نے بھی یہ معرکہ آرائی نہیں کی۔ پچھلی بار مذاکرات کرنے والے اپنے لیڈروں پر متاثرین کو اعتماد تھا۔ اب حکمرانوں پر تو اعتماد نہیں، نمائندوں پر بھی اعتماد نہیں رہا۔ پچھلی بار بھی حکمرانوں نے ایسے وعدے کئے تھے۔ مگسی صاحب کے حوالے پورا صوبہ کر دیا گیا کہ وہ کچھ کریں گے مگر وہ بھی بری طرح ناکام ہوئے۔ ہزارہ قبیلے کی شیعہ برادری کے نمائندے امین شہیدی کے روئیے سے لگتا ہے کہ وہ حکومت کے نمائندے ہیں۔ بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ کی باتیں بھی اتنی دل ہلا دینے والی نہ تھیں جتنی امین شہیدی نے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ فوج آ جاتی تو کیا قیامت آ جاتی۔ جو قیامت ہزارہ برادری پر توڑی گئی مگر حکومت کو جمہوریت بچانے کی فکر ہے اور امین شہیدی بھی ان کی فکرمندیوں میں شریک ہیں۔ سوات میں بھی فوج نے امن قائم کیا تھا تو اب کون امن نہیں چاہتا۔ میرے منہ میں خاک اگر غیر ملکی فوج آ جائے تو اس پر جمہوریت والوں کو کوئی اعتراض نہیں مگر اپنی فوج کے لئے وہ اتنے بدلحاظ اور خوفزدہ ہیں۔ جنرل کیانی وزیراعظم رینٹل اور صدر زرداری کی ملاقات کا خلاصہ فاروق نائیک نے یہ بیان کیا ہے کہ گورنر راج ختم کرکے صوبائی حکومت بحال کر دی جائے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب ہنگامہ صرف اسی مقصد کے لئے کیا گیا ہے۔ صدر زرداری کا بس چلے تو اسلم رئیسانی کو وزیر اعلیٰ کے طور پر بحال کر دیا جائے تاکہ وہ باقی ماندہ کام مکمل کر سکے۔ بلوچستان کو کیا تحفہ دینے کے لئے اسلم رئیسانی کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا؟ ایک کالم نگار بھائی نے نجی ٹی وی چینل پر کہا کہ ملک میں دہشت گردی بڑھانے کے لئے رحمان ملک کو وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ٹھیک کہا ہے کہ اسلام آباد کی چار عمارتوں میں بیٹھ کر پورے ملک پر حکمرانی کرنا اور جمہوریت چلانا ٹھیک نہیں ہے۔ بان کی مون کا اظہار افسوس کسی عالمی سازش کی نشاندہی کرتا ہے۔
الطاف حسین نے مذاکرات کو یکطرفہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دھرنا جاری رہنا چاہئے۔ امین شہیدی اب اپنے اس بیان پر غور کریں کہ یہ مقدس احتجاج ہے تو پھر مذاکرات کیا ہیں؟ پاکستان میں لاشوں کی قیمت ہے مگر زندوں یعنی چلتی پھرتی لاشوں کی کوئی قیمت نہیں۔ کوئٹہ مذاکرات ایک ظالمانہ مذاق ہیں۔ نام نہاد عمائدین اور مظاہرین میں فرق ہے۔ یہ تو شیعہ کمیونٹی کو تقسیم کرنے کی سازش ہے مگر ہم اس حقیقت کا کیا کریں کہ صدر زرداری بھی شیعہ ہیں۔ بار بار امین شہیدی شہیدوں کے اصل وارث لوگوں کی بات کرتے ہیں وہ جو شہید ہوئے لاوارث ہو گئے ہیں۔ اس صورتحال میں لوگ باتیں کر رہے ہیں کہ لاہور میں قتل ہونے والے ڈاکٹر علی حیدر کا کوئٹہ کے قتل عام سے کیا تعلق ہے۔؟