التوا سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں‘ بروقت الیکشن چاہتے ہیں: فوجی ترجمان
راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + بی بی سی + ایجنسیاں) پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ فوج آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور بروقت انتخابات کی حمایت کرتی ہے، انتخابات کے التوا سے فوج کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ عام انتخابات میں تاخیر کسی طور بھی فوج کے مفاد میں نہیں ہے۔ بلوچستان میں مسلح افواج نہ بلانے کا فیصلہ سیاسی ہے۔ عسکری قیادت کو صوبے میں فوج کی تعیناتی میں ہچکجاہٹ نہیں۔ آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول انتظامیہ کی مدد کرنے سے گریزاں نہیں۔ آئین کے تحت فوج حکومت کے ماتحت ہے، فوج کو جو بھی احکامات ملیں گے ان پر عملدرآمد ہو گا۔ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ سیاسی فیصلہ تھا اور اگر بلوچستان میں صوبائی حکومت بحال کی گئی تو یہ بھی ایک سیاسی فیصلہ ہو گا، ملک حالت جنگ میں ہے تمام اداروں کے جامع ردعمل کی ضرورت ہے، جتنی اتحاد و اتفاق کی ضرورت اب ہے اتنی پہلے نہ تھی۔ میڈیا بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ فوج کا طاہرالقادری یا بنگلہ دیش ماڈل سے کوئی تعلق نہیں، فوج ملک میں جمہوری عمل کی مکمل کی حمایت کرتی ہے فوج کا کالعدم لشکر جھنگوی سمیت کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں، فوج خود دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ فوج کا ایک بھی جوان مئی 2008ءسے بلوچستان میں آپریشنل سطح پر موجود نہیں۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ پانچ سال کے دوران فوج نے جمہوری حکومت کی بھرپور حمایت کی ہے اور اب اس موقع پر پالیسی کیوں تبدیل کریں گے۔ فوج نے جمہوریت کی بھرپور حمایت کی ہے اور ہر موقع پر یہی پالیسی رہی کہ جمہوریت کو مستحکم کیا جائے اب پانچ سال پورے ہونے پر کوئی ایسی صورت حال نہیں کہ پالیسی میں تبدیلی کی جائے۔ کوشش یہی ہے کہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد اقتدار اگلی حکومت کو منتقل ہو اور ملک میں جمہوریت کا سلسلہ جاری رہے۔ فوج بروقت، آزادانہ اور شفاف انتخابات کی مکمل حمایت کرتی ہے اس سلسلے میں الیکشن کمشن کو فوج کی جس حوالہ سے جو ضرورت ہے چاہے وہ ووٹر لسٹوں کی تصدیق ہے یا انتخابات کے حوالہ سے مختلف امور ان میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ جب گورنر راج لگایا گیا تو یہ فیصلہ سیاسی حکومت نے کیا تھا اور اگر بلوچستان میں گورنر راج ہٹایا جاتا ہے تو پھر یہ فیصلہ بھی سیاسی حکومت نے ہی کرنا ہے ان کا کہنا تھا کہ فوج کو بلوچستان میں نہ بلانا بھی سیاسی فیصلہ ہے۔ فوج کو کوئی شکوہ و شکایت پہلے تھی اور نہ اب ہے ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ ٹاﺅن واقعہ کے بعد ایف سی نے کوئٹہ میں 19 نئی پوسٹیں قائم کیں۔ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے جس کی قیادت ایف سی کر رہی ہے۔ اس میں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ فوج کے کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کوئی روابط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے فوج سے روابط کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ فوج لشکر جھنگوی سمیت دیگر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے کسی سے فوج کا کوئی رابطہ نہیں۔ آئی ایس آئی کے بلوچستان میں کردار کے حوالہ سے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی بلوچستان میں اپنی حدود میں رہ کر کام کر رہی ہے، چار ماہ میں 130 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے۔ جنوری میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کے چہلم پر دہشت گردی کے منصوبہ کو ناکام بنانا بھی شامل ہے۔ جو بھی آپریشن ہوں گے وہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر ہوں گے جہاں جہاں دہشت گردوں کی اطلاع ہو گی وہاں آپریشن کیا جائے گا۔ فوج کو انتخابات ملتوی کرانے سے کیا ملے گا۔ فوج بروقت انتخابات کی حمایت کرتی ہے۔ کوئٹہ میں حالیہ واقعات کے بعد آنے میں کسی قسم کا کوئی انکار نہیں تھا سول حکومت فوج کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت بلا سکتی تھی اس سلسلہ میں فوج کو کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ کالونی کا ایک حصہ فوجی چھاﺅنی کے ساتھ لگتا ہے فوج اسے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے مسئلے سے سنجیدہ طور پر نمٹنے کے سلسلے میں میڈیا، دفتر خارجہ اور عسکری قیادت کے کردار کو سراہا۔ مولوی فقیر محمد کی حوالگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دفتر خارجہ کا اس سلسلے میں افغان دفتر خارجہ سے رابطہ ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ہزارہ ٹا¶ن واقعہ کے بعد فرنٹیئر کور نے 19 نئی چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ ایف سی کی کمانڈ میں کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں ٹارگٹ آپریشن جاری ہے جس میں خفیہ ایجنسیوں کے علاوہ پولیس کی مدد بھی حاصل ہے۔ آئی ایس آئی اپنی حدود میں رہتے ہوئے صوبے میں کارروائیاں کر رہی ہے۔