قومی کرکٹ ٹیم کے بوڑھے طوطے!
قومی کرکٹ ٹیم کے بوڑھے طوطے ابھی تک خود کو جوان سمجھتے ہیں۔ شاہد آفریدی اور مصباح الحق اپنی کارکردگی اور فٹنس کی وجہ سے ان جوان بوڑھوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ جنہیں اب رضا کارانہ طور پر دوسروں کے لئے جگہ چھوڑ دینی چاہئے مگر ہمارے دوسروں سے سپورٹس سپرٹ کی توقع رکھنے والے خود یہ قربانی دینے پر تیار نہیں ہوتے اور اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے وہ ٹیم سپرٹ کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ قومی سلیکشن کمیٹی نے جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچوں کیلئے قومی کرکٹ ٹیم کا اعلان کردیا ہے۔ آل راﺅنڈر شاہد آفریدی کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا گیا ہے کہ وہ سُپر سٹار ہونے کا ایک بار پھر ثبوت فراہم کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت ٹی وی چینلز پر کھلاڑیوں کے نام چلائے جا رہے تھے اس کے ساتھ ہی چیف سلیکٹر کا ایک بیان بھی تازہ ترین ٹیکرز کا حصہ تھا جسمیں شاہد آفرید ی کی ٹیم میں شمولیت کی وجہ افغانستان کے خلاف ان کی فٹنس اور باﺅلنگ کی اضافی خوبی بتایا جا رہا تھا۔ کچھ حقدار کھلاڑی بھی ٹیم میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ ٹیم کے دو مضبوط ستونوں کی مخالفت کے باوجود وہا ب ریاض کو موقع مل گیا ہے جہاں تک تعلق شاہد آفریدی کی کارکردگی کا سوال ہے تو اس پر ماہرین مطمئن نہیں ہیں کہا جا رہا ہے کہ آفریدی کو کارکردگی کی بنیاد پر نہیں گلیمر کے لئے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ ان کی کارکردگی سے غیر مطمئن لوگ کہتے ہیں کہ یوں لگتا ہے آفریدی کو تب ہی مستقل ازالہ کے لئے باہر بھیجا جا سکتا ہے جب وہ گراﺅنڈ میں تھک کر گر جائیں گے لہٰذا سلیکٹر کسی اور کھلاڑی کو موقع دیتے تو اچھا تھا۔ شاہد آفریدی کی مسلسل ناکامیاں بیڈ پیج کہیں بلکہ ان کی ڈھلتی عمر ،کمزور ریفلیکسز کی وجہ سے ہیں وہ رکی پونٹنگ، برائن لارا،انضمام الحق،میتھیو ہیڈن، ایڈم گلکرسٹ، راہول ڈریوڈ، اینڈریو فلنٹوف سے بڑے کھلاڑی تو نہیں ہیں پھر بھی ان پر غیر ضروری اعتماد نوجوان ٹیلنٹ کا خون کرنے کے برابر ہے۔ دوسری طرف قومی کرکٹ ٹیم کے ٹیسٹ اور ون ڈے کے کپتان مصباح الحق نے بھی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے امکانات کو مسترد کردیا ہے۔مصبا ح الحق تکنیکی لحاظ سے مضبوط اور پانچ روزہ کرکٹ کے تقاضوں کے عین مطابق کھیلنے کی خداداد صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ اکثر اوقات وہ ون ڈے کیلئے بھی پرفیکٹ معلوم ہوتے ہیں ان پر غیر ضروری تنقید بھی ہوتی ہے لیکن وہ ڈٹے رہتے ہیں وہ ایک اچھے کھلاڑی ہیں اس میں کوئی شک نہیں، نجی محفلوں میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ماضی میں ان کے ساتھ نا انصافی ہوتی رہی ہے لیکن کیا اب وہ ناانصافی کا بدلا نوجوانوں سے ناانصافی کر کے لینا چاہتے ہیں؟ یقیناً یہ ایک اچھی روایت نہیں ہے، انہیں بروقت اپنے کرکٹ کا فیصلہ خود کرناچاہئے یا پھر مصباح الحق نے بھی ذہن بنا لیا ہے کہ شاہد آفریدی اور ماضی کے ”عظیم کھلاڑیوں“ کی طرح وہ بھی عزت کے ساتھ خود نہیں جائیںگے بلکہ تاریخ کو دہراتے ہوئے جب تک ان پر دروازے بند نہیں کئے جاتے ان کے خلاف بغاوت نہیں ہو جاتی۔ موجودہ ٹیم میںوہ تمام کھلاڑی جن کا کیئریر روبہ زوال ہے بہتر ہے کہ وہ عزت و وقار والا راستہ اختیار کریں وگرنہ پھر ہمارے ہاں دھکوں کا رواج عام ہے۔