غلط تفتیش سے سارا معاملہ الٹ ہوگیا‘ ملک میں عدم تحفظ کی ذمہ دار پولیس ہے : جسٹس افتخار
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں شاہ زیب قتل کیس کی سماعت، ڈی آئی جی کراچی کی جانب سے پیش کی جانیوالی پولیس رپورٹ پر عدالت کا اظہار برہمی، عدالت نے کیس کا ریکارڈ، ایف آئی اے کے تفتیشی افسران اور اے ایس ایف افسران کو طلب کرتے ہوئے سماعت آج 22 فروری تک ملتوی کردی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کے غلط طرزعمل اور تفتیش کے باعث سارا کیس غلط رخ چلا گیا ہے۔ ملزم کے کمزور بیان پر رہائی کیلئے مضبوط عمارت تعمیر نہیں ہوسکی۔ پولیس کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک میں عدم تحفظ کی صورتحال کی ذمہ دار پولیس ہے۔ کراچی میں اوپن ٹرانسفر لیٹر پر بے تحاشا گاڑیاں سڑکوں پر بھاگ رہی ہیں۔ ایسی ہی گاڑیاں جرائم میں استعمال ہوتی ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ خط و کتابت کرکے صرف فائلوں کا پیٹ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا رہا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ لگتا ہے کراچی ائرپورٹ پاکستان کا حصہ نہیں جو ایف آئی اے والوں کی بات ہی نہیں سنتے، جتنی بے بسی ایف آئی اے دکھا رہا ہے اتنی بے بسی تو افریقہ کے ملک میں بھی نہ ہوگی۔ گزشتہ روز چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے شاہ زیب قتل کیس کی سماعت کی تو ڈی آئی جی کراچی شاہد حیات عباسی، انسپکٹر مبین، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لیگل اعظم خان اور شاہ رخ کے وکیل ابراہیم ستی عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈی آئی جی نے کیس سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم کے چالان ٹرائل کورٹ میں پیش کردیئے گئے ہیں۔ آلہ قتل اور استعمال ہونیوالی گاڑی شاہ رخ کے بھائی کے نام پر ہے جس کی تصدیق ہوگئی ہے جبکہ فرانزک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس آلہ قتل (پستول 9mm) سے شاہ زیب کو قتل کیا گیا وہ یہی ہے جبکہ میڈیکل رپورٹ میں شاہ رخ جتوئی کو بالغ قرار دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ واقعہ میں استعمال ہونیوالی گاڑی شہزاد جتوئی کے نام نہیں بلکہ اوپن ٹرانسفر لیٹر پر تھی جو کہ ایک جرم ہے جس کا ہم نے ابھی نوٹس نہیں لیا۔ کراچی کی سڑکوں پر غیررجسٹرڈ گاڑیاں دوڑ رہی ہیں جو جرائم میں استعمال ہوتی ہیں۔ پولیس کی غلط تفتیش کے باعث کیس غلط رخ پر چلا گیا ہے۔ اگر شاہ رخ بالغ ہے تو پہلے نابالغ کی میڈیکل رپورٹ کیوں دی گئی؟ اس دوران شاہ رخ کے وکیل ابراہیم ستی نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ وہ تشریف رکھیں ابھی انہیں بھی سنتے ہیں۔ کیا آپ شاہ رخ کی رہائی چاہتے ہیں؟ اب تو سب کچھ مکمل ہوچکا، صرف ملزم کو پھانسی لگنا باقی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی آئی جی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سرزنش کی کہ جب کیس کی تفتیش درست نہیں ہورہی تھی تو آپ کو کیس اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئے تھا۔ کسی کو اتنا بااثر بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ائرپورٹ سے بورڈنگ کارڈ اور دیگر شرائط پوری کئے بغیر بیرون ملک چلا جائے۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لیگل اعظم خان نے بتایا کہ معاملے میں ایف آئی اے، اے ایس ایف اور امیگریشن ملوث نہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کو دیکھنے والے ایف آئی اے کے افسران کو بلائیں۔ دسمبر کا واقعہ ہے، اس وقت سے ایف آئی اے کو سی سی ٹی وی کی فوٹیج نہیں مل رہیں۔ کراچی کا جناح ائرپورٹ کوئی عام ائرپورٹ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے نے مجرموں کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ ایف آئی اے ناکام ہوچکی ہے، یہ سن کر بہت سے لوگوں کو خوشی ہوئی ہوگی۔ اعظم خان نے کہا کہ شاہ رخ کو جاری ہونیوالا بورڈنگ کارڈ کا پاسپورٹ پر نمبر غلط تھا، ٹکٹ بھی غلط نام سے خریدا گیا۔ بورڈنگ طلحہ حسین اور ٹکٹ جاری کرنیوالے سہیل کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ملزم کو ائرپورٹ پر سہولیات فراہم کرنیوالوں کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں۔ اس کیلئے اے ایس ایف سے سی سی ٹی وی کی فوٹیج مانگی ہیں۔ ملزم شاہ رخ جتوئی کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ شاہ رخ جتوئی کے عزیزوں کی جائیدادوں کو ضبط کرلیا گیا ہے۔ قانون ملزم کو بچانے کیلئے ہوتا ہے، مقدمہ کی کارروائی یکطرفہ ہورہی ہے۔ کیس ٹرائل کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس کی کارروائی ختم کرے۔ عدالت نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محمد مالک، ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد اور کیس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت آج 22 فروری تک ملتوی کردی ہے۔