زرداری، کیانی سمجھتے ہیں کہ ”امریکی سکرپٹ“ سے دور ہونے کا وقت آ گیا: امریکی اخبار
واشنگٹن (اے پی اے) امریکی اخبار ”فارن افیئرز“ کے مطابق پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری واشنگٹن کے لئے آسان نہیں، کئی عشروں سے امریکہ نے افغانستان میں اپنے مقاصد اور معاشی فوائد اور ملکی استحکام کے حصول اور زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی بجائے بھارت کو اہمیت دی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ امریکی فوجی و اقتصادی امداد پر انحصار کیا ہے اور اپنے رویہ کو زیادہ تبدیل نہیں کیا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو تعلقات میں حائل ہونے والی خلیج کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ شاید دونوں ہی ٹھیک ہیں۔ پاکستان امریکہ تعلقات کی بحالی امریکہ کے لئے بہت مشکل ہدف ہے، امریکہ نے افغانستان میں کئی معاملات میں پاکستان کو نظرانداز جبکہ اس کے حریف بھارت کو اہمیت دی جس سے دونوں ممالک کے درمیان ایک خلیج حائل ہو گئی ہے۔ پاکستانی اکثریت امریکہ مخالف ہے اور سمجھتی ہے کہ امریکہ نے ہر مشکل گھڑی اور انتہائی ضرورت کی امداد کو وقفے وقفے سے جاری کیا جس سے پاکستان کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا۔ امریکی رویہ نے پاکستان کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاںبحق ہزاروں فوجیوں، بے گناہ شہریوں اور بیش بہا سرمایہ کے استعمال کے باوجود پاکستانی معاونت اور جنگ میں اس کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ اخبار کے مطابق صدر آصف علی زرداری اور چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویز کیانی سمیت کئی حکام کا خیال ہے کہ اب ”امریکی سکرپٹ“ سے دور ہونے کا وقت ہے مگر وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ اپنا رویہ مثبت کر لے تو امریکہ بہترین اتحادی ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ پاکستان کو ناشکرگزار وصول کنندہ سمجھتا ہے جو 1947ءسے اب تک 40 بلین ڈالر فوجی و معاشی امداد وصول کر چکا ہے جن میں سے 23 ارب ڈالر صرف گذشتہ دہائی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت کے صلے میں دئیے گئے۔ اخبار کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ مسکراتے ہوئے امداد وصول کی مگر 1980ءمیں خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بھی بنا لئے اور 1990ءکی دہائی میں دوسرے ممالک کو اس کی ٹیکنالوجی منتقل کرنا شروع کرنے کے ساتھ ساتھ عسکریت پسند اسلامی تنظیموں کی حمایت شروع کر دی۔ امریکہ جو بھی کرے اس کے کئی سینیٹرز، ارکان کانگریس اور صحافی پاکستان کو قابل اعتماد اتحادی نہیں سمجھتے، کئی بلین امریکی امداد بھی پاکستانی معیشت کو بہتر نہیں بنا سکی۔