امریکہ سے ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں‘ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی خدمات تسلیم کی جائیں: نوازشریف
لاہور (خصوصی رپورٹر) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نوازشریف نے اوباما انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایڈ کی بجائے ٹریڈ، سرمایہ کاری اور دونوں ملکوں کے عوام کے باہمی روابط کی بنیاد پر استوار کریں۔ ان خیالات کا اظہار نوازشریف نے امریکی ایوان بالا کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے نومنتخب چیئرمین سینیٹر رابرٹ میننڈیز سے رسمی ملاقات میںکیا۔ خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں جانب سے باہمی دلچسپی کے متعدد امور پر جامع انداز میں تبادلہ خیال کےا گےا۔ نوازشریف نے سینیٹر میننڈیز کو اس اہم عہدے پر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ان کے پیشرو موجودہ وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان امریکہ تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس اعتماد کا بھی اظہار کیا کہ نئے چیئرمین کی رہنمائی میں امریکہ کی پاکستان کیلئے پالیسی باہمی اعتماد اور دلچسپی پر مبنی ہو گی۔ انہوں نے زور دیا جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں اہم ملک پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف اور امن کے فروغ کیلئے خدمات کو تسلیم کیا جانا چاہئے اور انہیں تحسین کی نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔ خطے کی پیچیدہ صورتحال میں دونوں ملکوں کیلئے لازم ہے کہ وہ نہایت قریب رہ کر اعتماد اور باہمی ادراک کے ماحول میں کام کریں۔ سینیٹر میننڈیز نے ملاقات کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان میںجمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے ان کی خدمات کے سبب وہ امریکہ کے نزدیک گہری عزت کے حامل ہیں۔ امریکہ پاکستان کے آئندہ انتخابات کے سلسلے میں ہونے والی سیاسی پیش رفت گہری دلچسپی سے دیکھ رہا ہے کیونکہ یہ ایک اہم موقع ہے اور پہلی بار آئین کے مطابق ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار ہو رہا ہے۔ سینیٹر میننڈیز نے حال ہی میں لاہور میں شروع ہونے والے میٹرو بس منصوبے کی تعریف کی اور کہا کہ وہ نیوجرسی سے آئے ہیں اور انہیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ لاہور کا ماس ٹرانسپورٹ کا منصوبہ انتہائی مستعد اور اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔ اس ملاقات میں پاکستان، امریکہ باہمی تعلقات، پاکستان کے سیاسی اور خطے کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن، امریکن قونصلیٹ کی پرنسپل افسر نینا ماریہ فائٹ، وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان، مریم نواز شریف اور دیگر بھی موجود تھے۔ علاوہ ازیں نواز شریف سے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے بھی ملاقات کی جس میں ملک کی مجموعی خصوصاً بلوچستان کی صورتحال‘ نگران حکومت‘ آئندہ عام انتخابات اور مستقبل میں ملکر چلنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ نوازشریف نے ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی کےلئے کوئٹہ آمد کے موقع پر طلال اکبر بگٹی سے ملاقات کی یقین دہانی کرائی۔ طلال اکبر بگٹی نے نوازشریف سے بلوچستان میں شفاف انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے کردار ادا کرنے کی بھی درخواست کی۔ ملاقات کے آغاز پر طلال اکبر بگٹی نے نوازشریف کے چھوٹے بھائی عباس شریف کے انتقال پر اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کی۔ طلال اکبر بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں آج بھی فوجی آپریشن جاری ہے، ایسے حالات میں وہاں شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے نوازشریف سے درخواست کی کہ وہ بلوچستان میں صاف اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرنے کےلئے کردار ادا کریں۔ اس موقع پر انہوں نے نوازشریف کو دورہ کوئٹہ کی بھی دعوت دی جس پر نواز شریف نے کہا کہ وہ ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی کےلئے کوئٹہ آمد پر ان سے بھی ملاقات کریں گے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طلال اکبر بگٹی نے بتایا کہ نواز شریف سے ان کے بھائی عباس شریف کے انتقال پر اظہار تعزیت کے علاوہ ملک کی مجموعی خصوصاً بلوچستان کے حالات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے بھی نوازشریف سے بات ہوئی ہے، ہم ملکر چلیں گے اور رابطوں کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا ارادہ ہے۔ کون کہتا ہے کہ کوئٹہ میں فوج بلائی جائے، فوج، ائیر فورس اور دیگر ایجنسیاں تو وہاں پہلے سے موجود ہیں۔ جمہوریت پسند قوتیں غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کے لئے متحد ہو چکی ہیں۔ طلال بگٹی نے کہا کہ طاہر القادری غیر جمہوری قوتوں کے ایجنڈے پرکام کر رہے تھے اسی لئے عمران خان اور ق لیگ والے بھی ان سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ بلوچستان مین امن و امان قائم کرنے کے لئے وہاں سے فوج، ایف سی اور خفیہ اداروں کو نکالنا ہو گا۔ جب تک بلوچستان میں فوجی آپریشن بند اور لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوتے انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے گوادر پورٹ چین کو دینے کی شدید مخالفت کی۔