• news

فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ بناو تحریک

فیصل آباد میں لاہور ہائیکورٹ کا بنچ قائم کرنے کا مطالبہ پر 3 روز سے جاری ہڑتال کے بعد گذشتہ روز ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے شرکا نے ڈی سی آفس اور عدالتوں میں توڑ پھوڑ کی اس سے عوام کے موڈ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ فیصل آباد میں ہائی کورٹ بنچ کیوں قائم کیوں نہیں کیا جاتا؟ سب کی زبان پر اس سوال کا ایک ہی جواب ماضی کی طرح آج بھی موجود ہے کہ لاہور کے بااثر وکلاءنہیں چاہتے کہ ان کی آمدن میں فیصل آباد میں لاہور ہائیکورٹ کا بنچ قائم ہو کر کمی واقع ہو جائے۔ اسی لئے وہ فیصل آباد میں عدالت عالیہ کا بنچ قائم نہیں ہونے دیتے اور فیصل آباد جو کہ وطن عزیز کا تیسرا اور صوبہ پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے ساتھ ملک کو کراچی کے بعد دوسرے نمبر پر ریونیو دینے والا سٹی ڈسٹرکٹ ہے وہ گھر کی دہلیز پر سستے اور فوری انصاف سے محروم رہ جاتا ہے۔ آخر فیصل آباد سٹی ڈسٹرکٹ اور فیصل آباد ڈویژن میں شامل دیگر تین اضلاع ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ، ضلع جھنگ اور ضلع چنیوٹ کے باسیوں کا کیا قصور ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو وہ اپنے فیصل آباد کی ایک روحانی شخصیت ابو انیس صوفی برکت علی سے بار بار وعدوں کے باوجود یہاں لاہور عدالت عالیہ کا بنچ قائم نہیں کر سکے۔ آخر اس شہر اس ضلع اور ڈویژن کے عوام کا کیا گناہ ہے کہ تمام حکمران اور سیاست دان وعدوں اور دعو¶ں کے باوجود فیصل آباد میں لاہور ہائیکورٹ کا بنچ قائم نہیں کروا سکے اور آخر کیا وجہ ہے کہ سابق وزرائے اعظم میرظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف بیشتر وفاقی و صوبائی وزراءوزارت قانون کا قلمدان سنبھالنے والے صوبائی اور وفاقی وزراءقانون بار بار وعدے تو کرتے رہے مگر کسی نے وعدہ وفا نہ کیا۔ فیصل آباد ڈویژن اور سٹی ڈسٹرکٹ کے لاہور عدالت عالیہ میں کم و بیش چالیس فیصد مقدمات زیرسماعت ہیں جس کے لئے ہر پیشی پر آنے جانے کے لئے یہاں کے باسیوں کو ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں انہیں کئی کئی سال اپنے کیسوں کی تاریخ پر جانے کے لئے گاڑی کرایہ پر لینے اور لاہور کے وکلاءکی بھاری بھر کم فیس برداشت کرنے کے علاوہ بصورت دیگر فیصل آباد سے وکلاءلے جانے پر کرائے پر گاڑیاں اور ان کے کھانے پینے کا بھاری بھر کم خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب لاہور عدالت عالیہ کے بہاولپور اور ملتان میں بنچ قائم ہیں پھر فیصل آباد جیسے پنجاب کے دوسرے بڑے شہر کو آخر کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اگر ملتان اور بہاولپور کے آپس میں مسافت کا جائزہ لیا جائے تو پھر ملتان اور بہاولپور دونوں اس طرح کے جڑواں شہر ہیں کہ وہاں کسی ایک شہر میں بھی لاہور عدالت عالیہ کا بنچ قائم کر کے جنوبی پنجاب کے ان دو بڑے شہروں کی لاہور تک وسیع مسافت کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا تھا مگر بہاولپور اور ملتان دونوں ڈویژنوں کی آبادی کو پیش نظر رکھ کر وہاں قانونی اور آئینی ضابطہ اخلاق کے عین مطابق لاہور ہائیکورٹ کے بنچ قائم کئے گئے اب جب بھی فیصل آباد یا سرگودھا والے لاہور ہائیکورٹ بنچ کے قیام کی بات کرتے ہیں تو انہیں طفل تسلیاں دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ آخر اس ستم ظریفی کی وجوہات کیا ہیں اور کفر کے اس باب کو توڑا کیوں نہیں جا رہا۔ میں خود جنرل پرویزمشرف جس وقت صدرمملکت تھے اور اسی طرح سابق وزراءاعظم میرظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز اپنے اپنے ادوار میں جب وزیراعظم رہے تو ان کے اجلاسوں میں موجود تھا جہاں انہوں نے سول سوسائٹی، وکلاءاور تاجر برادری کے سوالوں اور مطالبوں پر وعدے کئے تھے کہ وہ یہاں ہائیکورٹ کا بنچ قائم کریں گے۔ لاہور عدالت عالیہ کے سابق چیف جسٹس جناب خواجہ محمد شریف خود ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران وکلاءکے نعروں پر مبنی مطالبہ پر کہہ چکے ہیں کہ فیصل آباد میں لاہور ہائیکورٹ کے بنچ کے قیام کےلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری سے بات کریں گے جس وقت جنرل (ر) پرویزمشرف نے عدلیہ کو معزول کیا تھا اور ملک بھر میں کالے کوٹوں والے آزاد عدلیہ کا خواب لے کر عملی تحریک چلا رہے تھے تو اس وقت جب فیصل آباد کے وکلاءنے چیف جسٹس آف پاکستان کو فیصل آباد بار میں آ کر خطاب کرنے کی دعوت دی اس پر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی نے فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جنرل سیکرٹری اور عہدیداروں کو پیشکش کی کہ اگر وہ چیف جسٹس آف پاکستان کی فیصل آباد آمد کو موخر کرنے کا اعلان کر دیں تو ہر حال میں فوری طور پر فیصل آباد میں لاہور ہائیکورٹ کا بنچ قائم کر دیا جائے گا مگر فیصل آباد کے باشعور وکلاءنے آئین اور قانون کی حکمرانی کا پرچم بلند کرنے کی خاطر چیف جسٹس آف پاکستان کو نہ صرف فیصل آباد لے کر آئے بلکہ ان کا خطاب بھی کروایا اور اپنے ایک طویل مطالبے کو اصولوں پر قربان کر دیا۔ آج یہی وکلاءاور اس شہر ضلع اور ڈویژن کے عوام چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ فیصل آباد میں لاہور ہائیکورٹ کا بنچ قائم کریں۔ یہ بنچ قائم ہونے سے فیصل آباد ضلع کی تمام تحصیلوں ڈویژن کے دیگر تینوں اضلاع اور اگر ننکانہ صاحب اور اسی طرح دیگر نواحی اضلاع کو عدالتی اعتبار سے فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ قائم ہونے کی صورت میں یہاں پر ان کے کیسز ریفر کئے جانے لگے تو بہت بڑی تعداد میں مقدمات عوام کے فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ میں سنیں اور سلجھائے جا سکتے ہیں۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ خاں ایڈووکیٹ کا تعلق فیصل آباد سے ہے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد خاں بھی فیصل آبادی ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کی طرف سے صرف کچھ عرصہ پہلے تک اپوزیشن میں رہنے والے چوہدری ظہیرالدین خاں کا تعلق بھی فیصل آباد سے ہے۔ رانا ثناءاللہ خاں ایڈووکیٹ اور راجہ ریاض احمد خاں دونوں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ہائیکورٹ بنچ بنا¶ تحریک میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ راجہ ریاض احمد خاں جب سینئر صوبائی وزیر بنے تو انہوں نے صرف چار ہفتوں میں فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ قائم کروانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ کچھ نہ کر سکے اور نہ ہی کچھ کر رہے ہیں۔ رانا ثناءاللہ خاں جو سیاسی دا¶ پیچ کے لئے شاید ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی ہائیکورٹ بنچ تحریک کا حصہ بنے رہے انہوں نے فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ کے قیام کے لئے کچھ نہ کیا البتہ وکلاءکے بقول بہت بڑی رکاوٹ بن گئے اسی لئے اب جبکہ فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ایک مرتبہ پھر بھرپور انداز میں اپنے صدر میاں جاوید اقبال ایڈووکیٹ کی قیادت میں تحریک چلائے ہوئے ہے عدالتوں کی تالہ بندی تک کی جا چکی ہے۔ وکلاءمظاہرین کی طرف سے ڈی سی او آفس میںتوڑ پھوڑ بھی ہو چکی ہے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ خاں ایڈووکیٹ کی ڈسٹرکٹ بار کی طرف سے دوسری مرتبہ بار کی رکنیت معطل کر دی گئی ہے۔ اس پر بلاشبہ وزیرقانون کو شرمندہ ہو کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ لب کشائی تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کر سکے۔ مشرف دور میں فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے وفاقی وزارت قانون کا قلمدان سنبھالنے والے چوہدری وصی ظفر نے بھی فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ کے قیام کی تحریک کو بہت نقصان پہنچایا اور آج وہ سیاسی طور پر مرگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ فیصل آباد کے سیاست دانوں کو صوبائی اور وفاقی سطح پر پہنچ کر اپنی حقیقت کو بھولنا نہیں چاہیے وگرنہ عوام ان کا حشر بھی کچھ ایسا ہی کریں گے تاہم فیصل آباد میںہائیکورٹ بنچ کے قیام کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے کہ فیصل آباد مسلم لیگ (ن) کا قلعہ بھی تو ہے اور ویسے بھی ہائیکورٹ بنچ کے قیام کا مطالبہ صریحاً عوامی مطالبہ ہے جس کی سول سوسائٹی، تمام تاجر تنظیمیں، صنعت کار، برآمدکنندگان اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب اور ان کی تنظیمیں ساتھ دے رہی ہیں۔ گورنرپنجاب بھی چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت کے بعد اس ضمن میں نوٹیفکیشن جاری کر سکتے ہیں، کیوں نہ وہ بھی متحرک ہوں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس بارے میں وکلاءکے مطالبے کا پاس رکھتے ہوئے ازخود نوٹس لے کر فیصل آبادمیں ہائیکورٹ بنچ کے قیام کے لئے احکامات جاری کر دینے چاہئیں۔

ای پیپر-دی نیشن