• news

ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد اور حقوق اُلعِباد!

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طلبی پر‘ گورنر سندھ‘ ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد لندن چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب‘ ایم کیو ایم کے ڈسپلن میں ہیں۔ جب ایم کیو ایم۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی ہم نوا ہُوئی تو، جنرل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو‘ 27 دسمبر 2002ءکو گورنر سندھ مقرر کر دیا تھا۔ صدر مشرف چلے گئے اور جناب آصف زرداری کو صدر۔ ”منتخب“۔ کرایا گیا تو‘ ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد کی گورنر شپ بحال رہی۔ اِس لئے کہ ایم کیو ایم کا اب‘ پیپلز پارٹی سے اتحاد ہو گیا تھا۔ ایم کیو ایم کو‘ وفاق اور سندھ کے اقتدار میں حِصّہ بقدر جُثّہ مِلا۔ دونوں جماعتوں کا اتحاد۔ ”مَیں تے ماہی اِنج مِل گئے، جِیویں ٹِچّ بٹناں دی جوڑی“۔ کے مِصداق رہا۔ جب بھی کسی مسئلے پر ایم کیو ایم نے۔ ”تحفظات“۔ کا اظہار کیا‘ صدر زرداری نے اپنے۔ ”خصوصی ایلچی“۔ جناب رحمٰن ملک کو‘ الطاف بھائی کی خِدمت میں بھیجا اور۔ ”تحفظات“۔ دُورکر دئیے، لیکن اِس بار کہا جا رہا ہے کہ‘ پونے پانچ سال شِیر و شکر کی حیثیت سے۔ ”ملک اور قوم کی خِدمت“۔ کرنے والی جماعتوں میں مستقل لڑائی ہو گئی ہے۔ بظاہر یہ لڑائی نظر بھی آرہی ہے۔
سندھ اسمبلی میں عددی اکثریت کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ءکو ،واپس لے کر صدر جنرل ضیاءاُلحق کے دور کا 1979ءکا بلدیاتی نظام بحال کر دیاتو ، اِس میں ہرج ہی کیا ہے ۔ یہ ہر جماعت کا حق ہے کہ وہ عددی اکثریت کی بنیاد پر ،جب چاہے کوئی قانون بنائے اور جب چاہے اُس کی جگہ نیا قانون لے آئے ۔ علّامہ اقبال ؒ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ۔۔۔
” جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جِس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تو لا نہیں کرتے “
قومی اسمبلی میں، عددی اکثریت کی بنیاد پرہی ، وزیرِاعظم ذُوالفقار علی بھٹّو نے 1973ءکے ۔” متفقہ آئین “۔ میں 6ترامیم کرا لی تھیں۔خان عبدالولی خان ، مولانا مفتی محمود ،اور حزبِ اختلاف کے کئی دوسرے لیڈروں کو ایوان سے باہر بھی پھینکوا دیا تھا۔ صدر زرداری کے دور میں ایسا نہیں ہُوا۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ بھی۔ ”شرافت کی سیاست“۔ کئے قائل ہیں۔
اگر سندھ میں پیپلز پارٹی نے، صدر جنرل ضیاءاُلحق کا بلدیاتی نظام بحال کر دیا ہے تو کیا گناہ کِیا ؟۔کہ۔” حِکمت تو مومن کی گُمشدہ مِیراث ہے “۔ ستمبر 1979ءمیں پورے مُلک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ، پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کے امیدوار وںنے بالترتیب ۔” عوام دوست“۔اور ۔” حق پرست“ ۔ کے نام سے انتخابات میں حِصّہ لِیا تھا ۔ہر امیدوار نے ،الیکشن کمِشن میں یہ حلف نامہ بھی جمع کرایا تھا کہ ۔ ” میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے“۔انتخابات میں کامیاب ہونے والے بہت سے ۔” عوام دوست“۔ امیدواروں کو ، پیپلز پارٹی سے تعلق ثابت ہونے پر، نااہل قرار دے کر ، اُن کی جگہ َ” غیر سیاسی اور اہل“۔ لوگوں کو منتخب کرایا گیا تھا ۔
محترمہ بے نظیر بھٹّو نے ،1988ءکے عام انتخابات کے بعد، وزیرِاعظم منتخب ہو کر ، صدر جنرل ضیاءاُلحق کی ۔”باقیات“ ۔ ۔۔غلام اسحٰق خان کو،صدر اور صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے، قبول کر لِیا تھا تو ، مرحوم جنرل کا ،بلدیاتی نظام بحال کیوں نہیں کِیا جا سکتا ؟۔ محترمہ بے نظیر بھٹّو اور جنرل ضیاءاُلحق دونوں کی رُوحیں خوش ہو جائیں گی ۔ پیپلز پارٹی نے اپنی سیاست میں ، زمینی حقائق کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا ۔ جنرل ضیاءاُلحق کے بلدیاتی نظام کی بحالی سے ، کم ازکم سندھ کے ۔” قوم پرست“۔ تو خوش ہو گئے۔ ”حق پرست“۔ نہ سہی تو ۔” قوم پرست“۔ ہی سہی ۔ بقول مرزا غالب۔۔۔
”تُو نہیں اور سہی‘ اور نہیں اور سہی ! “
ایم کیو ایم نے۔ ”مہاجر قومی موومنٹ“۔ کے نام سے سیاست شروع کی، پھِر قومی سطح پر سیاست کرنے کے لئے ۔ ”متحدہ قومی موومنٹ“۔ بن گئی اورایم کیو ایم کے قائدین مہاجروں کو۔ ”اردو بولنے والے سندھی“۔ کہنے لگے تھے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں پنجابی، پشتو اور براہوی بولنے والے سندھیوں کو سندھی نہیں سمجھا جاتا۔ صدر جنرل ضیاءاُلحق کے بلدیاتی نظام کی بحالی کوایم کیو ایم کے جناب فاروق ستّار نے۔ ”سندھیوں اور مہاجروں کو تقسیم کرنے کی سازش“۔ قرار دِیا ہے ۔عربی زبان کے لفظ۔ ”فاروق“۔ کے معنی ہیں حق و باطل میں فرق کرنے والا۔ جناب فاروق ستّار نے اپنے غم و غُصّے میں ۔ ”حق و باطل کا فرق“۔ پھِر ظاہر کر دیا کہ،سیاست کرنے کے لئے، کسی بھی وقت۔ ”مہاجرت“۔ کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے، حالانکہ شاعر کا خیال ہے کہ۔۔۔
”مہاجرت میں‘ سیاست کا‘ کاروبار نہ کر!“
حزبِ اختلاف کے قائدِین۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی لڑائی کو حقیقی نہیں مانتے۔ ٹوپی ڈرامہ کہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ۔ ”ایم کیو ایم‘ سندھ اسمبلی میں، اپنا قائدِ حزبِ اختلاف منتخب کروا کے اور پیپلز پارٹی کے وزیرِاعلیٰ کے ساتھ ، کچھ دو اور کچھ لو، کے فارمولے کے تحت۔ ”متفقہ نگران وزیرِاعلیٰ“۔ لانا چاہتی ہے۔ تو بھائی لوگو!۔ جب آئین اِس کی اجازت دیتا ہے تو، اعتراض کیسا؟۔ یہی تو۔ ”جمہوریت کا حُسن“ ہے۔
قبل ازیں دونوں اتحادی جماعتوں، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں کئی بار لڑائی ہوئی، لیکن ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد نے صِرف ایک بار 17 جون 2011ءکو اپنے عہدے سے استعفیٰ دِیا‘ جِسے صدر زرداری نے نا منظورکر دیا تھا اور جب صدر نے ایم کیو ایم کے۔ ”تحفظات“۔ دُور کر دئیے تو‘ ڈاکٹر صاحب نے 19 جولائی کو دوبارہ اپنا منصب سنبھال لِیا، لیکن اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب گورنر شپ سے چمٹے رہے تو عام انتخابات میںایم کیو ایم کی پوزیشن کمزور رہے گی۔ ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد نے 1993ءمیں برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کر لی تھی اور پھِر برطانیہ کی شہریت بھی۔ الطاف بھائی کی طرح۔ دونوں لیڈروں کو برطانیہ کی شہریت چھوڑنے کی ضرورت نہیں کہ اُن کا‘ انتخاب لڑنے کا پروگرام ہی نہیں۔
الطاف بھائی لندن میں اور ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد پاکستان میں رہ کر‘ عوام کے۔ ”حقوق کی جنگ“۔ لڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد خوبصورت انسان ہیں اور ان کا نام بھی بہت خوبصورت ہے۔ عِشرت اُلعِباد یعنی (اللہ کے) بندوں کی خوش دِلی یا عیش و نشاط۔ ڈاکٹر عِشرت اُلعِباد کے ہوتے ہوئے‘ کبھی کبھی احساس ہوتا تھا کہ کم از کم‘ سندھ کی حد تک‘ اربابِ عِشرت و نشاط ( صاحبانِ اقتدار) کی نظر۔ اللہ کے بندوں کے حقوق (حقوق اُلعِباد) کی طرف اُٹھے گی‘ لیکن اُن کے مستعفیٰ ہونے کے بعد کیا ہو گا؟۔ کہ الطاف بھائی کا حُکم تو‘ آخری حُکم ہوتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن