عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی ہے: چیئرمین واٹر کونسل
لاہور (سپیشل رپورٹر) محمد سلیمان خان چیئرمین سندھ طاس واٹر کونسل نے کہا ہے کہ کشن گنگا ڈیم کا فیصلہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے جس سے نیلم جہلم پراجیکٹ جو تقریباً ڈھائی ارب روپے کی لاگت سے پاکستان تیار کر رہا ہے وہ متاثر ہو گا جبکہ یہ فیصلہ انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی ہے کیونکہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بھارت صرف پانی کے بہا¶ پر ڈیم بنا سکتا ہے پانی کو روکنے اور اس کے بہا¶ کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ باتیں انہوں نے گذشتہ روز روزنامہ نوائے وقت کو خصوصی انٹریو دیتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا ظلم یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ وولر جھیل کی طرف پانی کے بہا¶ کو کر رہا ہے اور بھارت اس پانی کو وولر جھیل کی طرف پورے سال کے لئے لے جانا چاہتا تھا جس کی وہ اجازت مانگ رہا تھا لیکن ثالثی کی عالمی عدالت نے کہا کہ سردیوں میں جب پانی کم ہوتا ہے اس کے چھ سے آٹھ ماہ تک پانی کو لے جانے کی اجازت نہیں ہے لیکن بھارت وولر جھیل کی طرف پانی کو چار ماہ لے کر جا سکتا ہے لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چار ماہ تک اس پانی کو بھارت وولر بیراج کی طرف کیوں لے کر جائے۔ اگر نیلم پراجیکٹ اور دیگر پراجیکٹ وہاں نہ ہوتے تو اس صورت میں پانی کو لے جانے میں کوئی ہرج نہیں تھا تاہم اس وقت ایسا فیصلہ ہونا ایسے ہی ہے کہ بھارت کو پاکستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب اگر بھارت کو چار ماہ کی اجازت دے دی گئی ہے تو پھر بھارت کو باقی 8 ماہ پانی کو لے جانے سے کون روکے گا اور بھارت نے ابھی تک عالمی ثالثی عدالت کو ریکارڈ ہی نہیں دیا کہ وہاں سے کتنا پانی گزرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے پر دنیا خاموش رہی تو تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے کیونکہ اس عالمی جنگ کا آغاز پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ سے ہو گا۔ پھر اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کشن گنگا پراجیکٹ کے بارے میں پاکستانی قوم کو مکمل تاریکی میں رکھا جا رہا ہے اور انڈس واٹر کمشنر لوگوں اور ایکسپرٹ سے ملنے سے گھبراتے ہیں اس وجہ سے پاکستان میں شبہات ابھر رہے ہیں کہ ان کا کیس لڑا ہی نہیں گیا شبہات کو تقویت اس طرح ملتی ہے کہ کشن گنگا کیس لڑتے وقت پاکستان نے اس کی تعمیر رکوانے کے لئے سٹے آرڈر کی کوئی درخواست نہیں دی۔ جس پر بھارتی وفد نے خوشی کا اظہا رکرتے ہوئے آٹھ ماہ میں اس کا بیشتر حصہ تعمیر کر لیا جب میڈیا نے پاکستان میں شور مچایا تو پاکستان نے آٹھ ماہ بعد سٹے کی درخواست دی جو ٹیکنیکل کرپشن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔