• news

توقِیر صادق۔۔۔” انکم سپورٹ پروگرام“

قومی خزانے کا 82ارب روپے لُوٹ کر، فرار ہونے والے اور اپنے اہلِ خانہ سمیت متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر ، اوگرا کے سابق چئر مین توقِیر صادق کو گرفتار کر کے ،پاکستان واپس لانے کی کوشش محض اِس وجہ سے ناکام ہو گئی کہ اُس ( توقِیر صادق) کو گرفتار کرنے کے لئے، ابو ظہبی جانے والی نیب کی ٹِیم کے پاس ( اپنے قیام و طعام کے علاوہ) ایک لاکھ 90ہزار روپے ( پاکستانی ) روپے نہیں تھے ۔ ابوظہبی میں پاکستانی سفارت خانے کے پاس، یہ رقم خرچ کرنے کی گنجائش تھی ، لیکن قواعد و ضوابط کے تحت ، سفیرِ پاکستان جناب جمیل احمد خان کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ۔” قواعد و ضوابط کے بندے“۔ ہیں اور وزارتِ خارجہ پاکستان کی منظوری کے بغیر اتنی خطیر رقم ، اپنے طور پر خرچ نہیں کر سکتے تھے ۔
خبر کے مطابق، ایک لاکھ 90ہزار روپیہ ، توقیر صادق کےءامارات میں ریذیڈنٹ ویزا کی منسوخی کے لئے دستاویزات کا ،انگریزی سے عربی زبان میں ترجمہ کرانے کےے لئے مطلوب تھا ، جو سفارت خانہ کے ملازم ٹرانسلیٹر کوبطورِ فِیس اداکِیا جانا تھا ۔ ظاہر ہے کہ فِیس تو فِیس ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر اور وکیل بھی پیشگی فِیس وصول کرتے ہیں تو ۔”ملازم ٹرانسلیٹر“۔ فِیس وصول کیوں نہیں کرے گا ؟ جب کہ وہ سفارت خانے کا ملازم ہے ۔ نیب کا نہیں ۔ وہ بیرسٹر اعتزاز احسن کی طرح دریا دِل بھی نہیں ، جنہوں نے سابق وزیرِا عظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے میں ، اُن کی وکالت کرنے کے لئے علامتی طور پر۔صِرف ایک سو روپیہ فِیس قبول کی تھی ۔
 سفیر ِ محترم ،جمیل احمد خان نے اپنی ۔” گوناںگوں مصروفیات “ کی وجہ سے، نیب کی ٹِیم سے مُلاقات بھی نہیں کی ، دراصل سفِیر صاحبان کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ،نیب کی ٹِیم یہ جان کر حیران ہوگئی کہ متحدہ عرب امارات میں، توقیر صادق کو گرفتار کرنے اور اُسے پاکستان واپس لانے کے لئے ایف۔آئی ۔ اے کی ٹِیم پہلے سے موجود تھی ۔ خبرمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ۔ ایف ۔آئی ۔اے کی ٹِیم ۔ نیب کی ٹِیم کو دیکھ کر حیران ہُوئی یا نہیں ؟۔ کئی اُستادوں کے باہم مِل کر نصاب پُورا کرنے کو ۔”Team Teaching“ ۔ کہتے ہیں ۔”نصاب“ کے بارے میں تو کُچھ نہیں کہا جا سکتا ، لیکن دونوں ٹِیموں کا نصب اُلعین تو ایک ہی ہے۔
 توقِیر صادق۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سینٹ میں قائدِ ایوان جناب جہانگیر بدر کا بہنوئی ہے ، شاید اِسی لئے وزیرِ داخلہ جناب رحمٰن ملک اُس ( توقِیر صادق ) کا نام بڑے احترام سے لیتے ہیں ۔ اور ملک صاحب کے احترام میں، الیکٹرانک میڈیا کے بعض رپورٹر ز( خواتین و حضرات ) بھی۔مسلم لیگ ن کے بعض لیڈروں کی طرف سے ،پنجاب کے سابق گورنر جناب لطیف کھوسہ جناب جہانگیر بدر اور جناب رحمٰن ملک پر، توقِیر صادق کو پناہ دینے اور مُلک سے فرار کرانے کا بھی الزام لگایا جا تا رہا ہے ۔ ان الزامات کی روشنی میںاسلام آباد پولیس ، ایف۔آئی۔ اے اور پنجاب پولیس نے ، 7اکتوبر 2012ءکو، اسلام آباد میں ، جناب جہانگیر بدر کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا ، تو سینٹ میں کُہرام مچ گیا اور اُسے ۔” سینٹ کی بے توقیری“ قرار دیا گیا ، حالانکہ یہ چھاپہ تو ۔ توقِیر صادق کی تلاش میں مارا گیا تھا ۔ جناب رحمٰن ملک اور اُن کی وزارتِ داخلہ پر بھی زبان و بیان کے تِیر چلائے گئے ۔ ” تِیر “۔جو پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ ۔” رحمٰن ملک داخلہ امور کم اور خارجہ امور زیادہ چلا رہے ہیں “۔
اوگرا کرپشن کیس کی سماعت کرنے والے، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل ، سُپریم کورٹ کے دورُکنی بنچ نے، 26جنوری کو ، نیب حُکام کو حُکم دِیا تھا کہ ۔” مفرور توقِیر صادق کا ، چیئر مین اوگرا کی حیثیت سے تقرر اور اُسے مُلک سے فرار ہونے میں مدد دینے پر ، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف ا، وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور سینیٹر جہانگیر بدر کے خلاف ایک ہفتہ کے اندر اندر ریفرنس دائر کر کے 30جنوری 2013ءتک رپورٹ پیش کریں ۔ یاد رہے کہ راجا پرویز اشرف جب وفاقی وزیر ِ پانی و بجلی تھے ، تو اُن کی چیئرمین شپ میں ، 5رُکنی کمیٹی نے ۔” توقِیر صادق کا بحیثیت چیئرمین اوگرا تقرر کر کے ، اُس کی سمری وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو بھجوائی تھی ۔ گیلانی صاحب نے اُس سمری کو منظور کرتے ہُوئے توقیر صادق کو چیئر میں اوگرا مقرر کر دیا تھا ۔29جنوری کو ، چئر مین نیب، سیّد فصیح بُخاری کا صدر زرداری کے نام خط ( استعفیٰ) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنا ، جِس میں موصوف نے کہا ۔
1۔ میری اجازت کے بغیر کوئی ریفرنس دائر نہیں کِیا جا سکتا ۔2۔ سیاستدانوں کے خلاف ، ریفرنسیز کے احکامات ، انتخابات سے پہلے دھاندلی ہے ۔3۔ سو مو ٹو کے نام پر ، عدلیہ کو ، انتظامیہ کو کھوکھلا کرنے کا، لائسینس مِل گیا ہے اور 4۔عوام ، کسی کو بھی مقدس گائے یا بیل کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں “۔ وغیرہ وغیرہ ۔
صدر زرادری نے سیّد فصیح بخاری کا استعفیٰ منظور نہیں کِیا اور بخاری صاحب ، توہیں ِ عدالت کے الزام کی صفائی دینے کے لئے وکیل کی تلاش میں ہیں اور اُن کے ماتحت نیب کی ٹِیم، توقِیر صادق کو گرفتار کر کے پاکستان لانے کے لئے ۔ متحدہ عرب امارات میں اور اِس ٹِیم کے پاس دستاویزات کے انگریزی سے عربی میں ترجمہ کرانے کے لئے ایک لاکھ 90ہزار روپے نہیں ہیں ۔ کیا یہ رقم اپنی ٹِیم کو چئر مین نیب بھجوائیں گے ؟۔یا امارات میں پاکستان کے سفیر جناب جمیل احمد خان کے طلب کرنے پر وزارتِ خارجہ بھجوائے گی؟ ۔ وزارتِ خار جہ محترمہ حِنا ربانی کھر کے ماتحت ہے اور وزیرِ خارجہ۔وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف کے ڈسپلن میں اور راجا صاحب ( بقول اُن کے) جناب صدر زرداری کے ادنیٰ کارکُن ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وزیرِاعظم اِس معاملے میں ، رحمٰن ملک اور جہانگیر بدر کی ماہرانہ رائے بھی لیں ۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ! ممکن ہے کہ وزیرِاعظم یہ معاملہ نگران وزیرِاعظم کی صوابدید پر چھوڑ دیں ، لیکن نگران وزیرِاعظم صاحب توغیر جانبدار ہوں گے !۔ وہ پیپلز پارٹی کے اکابرین ۔راجا پرویز اشرف ، جناب رحمٰن ملک اور جناب جہانگیر بدر کے خلاف کُچھ کارروائی کیوں ہونے دیں گے ؟۔
میرا مفت مشورہ یہ ہے کہ ابوظہبی میں مقیم ایف ۔آئی۔ اے اور نیب کی دونوں ٹِیمیں ، اگر وہاں کسی قِسم کا دوستانہ میچ کھیلیں تو ،ایک لاکھ 90ہزار سے زیادہ رقم جمع ہو سکتی ہے ۔اور وہاں موجود پاکستانی یہ میچ دیکھنے کے لئے ۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے دو اہم اداروں کی ٹِیموں کی( Moral support)۔ اخلاقی مدد کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹِکٹ ضرور خریدیں گے ؟۔ یہ الگ بات ہے کہ توقِیر صادق کی ۔” اخلاقی مدد“۔ کرنے والے زیادہ طاقتور ہیں ۔ یوں بھی 82ارب روپے کا گھپلا۔” کلّے بندے دا کم نئیں “۔
 توقِیر صادق نے، اپنے محسنوں ، سر پرستوں اور بھائی بندوں کی آشیرواد سے ہمارے جوڈیشنل سِسٹم کو چیلنج دے رکھا ہے ۔ اب اُس سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی گرفتاری اور ابوظہبی سے پاکستان واپسی کے لئے خود دستِ تعاون آگے بڑھائے اور ۔ توقِیر صادق ۔ ” انکم سپورٹ پروگرام“۔ شروع کردے۔

ای پیپر-دی نیشن