• news

شوگر پالیٹکس

رب کائنات نے زمین اور اسکے اندر چھپے خزانے اپنے بندوں کیلئے تخلیق کیے تھے مگر اس پر جاگیردار، صنعت کار اور تاجر قابض ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں شوگر ملز پر سیاستدانوں کی اجارہ داری ہے۔ 79 شوگر ملوں میں سے 29 کے مالک حکمران اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ [حسین محی الدین قادری:Economics of Agriculture Industry] پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے پاس 11 شوگر ملز ہیں۔ شریف خاندان 9 شوگر ملز کا مالک ہے۔ مسلم لیگ(ق) کے لیڈر 9 شوگرملز چلارہے ہیں‘ جن میں سے چوہدری برادران کی 4 شوگر ملز ہیں۔ جہانگیر ترین (تحریک انصاف) 2 شوگر ملز کے مالک ہیں۔ ہمایوں اختر کے بھائی ہارون خان، نصر اللہ دریشک اور انور چیمہ کے پاس ایک ایک شوگر ملز ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پی پی پی کے لیڈروں کی 6 شوگرملز ہیں جو سندھ میں ہیں اور زیادہ تر آصف علی زرداری کی ملکیت ہیں۔ سابق وفاقی وزیر عباس سرفراز خیبرپختونخواہ کی 6 شوگر ملز میں سے 5 کے مالک ہیں۔ سیاستدانوں نے صنعت کاروں کیساتھ گٹھ جوڑ کرکے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن قائم کررکھی ہے تاکہ شوگر ملز مالکان کے مفادات کا تحفظ اور دفاع کیا جاسکے۔ یہ ایسوسی ایشن گنے کی کرشنگ اور چینی کی مارکیٹ میں فروخت کا فیصلہ کرتی ہے۔ حکومت نے عوام کے مفادات کیلئے اجارہ داری کنٹرول اتھارتی قائم کررکھی ہے مگر چونکہ شوگر ملز کے سیاستدان مالکان حکومتی منصبوں پر فائز ہوتے ہیں اس لیے کنٹرول اتھارٹی آزادی کے ساتھ اپنا فرض پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔شوگر ملز کے سیاسی مالکان چونکہ حکومت میں ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی مرضی اور منشاءکیمطابق قانون سازی کروالیتے ہیں۔ وہ سیاسی اثرورسوخ کی بناءپر کسانوں سے گنا اپنی مرضی کی قیمت پرکریڈٹ پر خریدتے ہیں۔ قیمت کی ادائیگی تاخیر سے کرتے اور مختلف حیلے بہانوں سے کٹوتیاں کرلیتے ہیں ۔ اپنی مرضی سے چینی پیدا کرتے ہیں اور چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کیلئے پیداوار کم کردیتے ہیں یا ذخیرہ اندوزی کرلیتے ہیں۔ انتظامیہ چونکہ حکمران سیاستدانوں کے زیر اثر ہوتی ہے اس لیے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی شوگر ملز کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتی۔ 2004-2006ءتک صارفین کو سنگین نوعیت کے چینی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی مارکیٹ سے اچانک غائب کردی گئی اور قیمت 21 روپے سے 45 روپے تک بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ تاجروں نے بھارت سے غیر معیاری چینی درآمد کرکے غیر معمولی منافع پر فروخت کردی۔ نیب نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ شوگر بحران میں اراکین اسمبلی اور وزراءملوث ہیں اور انہوں نے 316690 میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کررکھی ہے۔ اس رپورٹ کیمطابق ہمایو ںاختر وفاقی وزیر تجارت ، انکے بھائی ہارون اختر نے اپنے کزن شمیم کیساتھ مل کر کمالیہ، تاندلیاوالہ، والہ میران اور لیہّ شوگر ملز کی 99464 میٹرک ٹن چینی ذخیرہ کررکھی تھی۔ رپورٹ کیمطابق ذخیرہ اندوزی کر کے غیر معمولی منافع کمانے والوں میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری، چوہدری شجاعت حسین، جہانگیر ترین، نصراللہ دریشک، انور علی چیمہ اور میاں اظہر شامل تھے۔[حسین محی الدین قادری :صفحہ نمبر 361] عدلیہ کے سخت نوٹس کے باوجود حکومت نے شوگر ملز مالکان کیخلاف کوئی کاروائی نہ کی۔ رمضان المبارک کے مہینے میں شدید گرمی کے باوجود غریب خواتین قطار میں کھڑے ہوکر مہنگی چینی خریدتی رہیں۔ اس وقت ملک پر ایک آمر جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض تھا جو ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ عوام آمریت اور جمہوریت دونوں ادوار میں رُلتے ہی رہے ۔ پاکستان میں جب سے سیاست اور تجارت میں ملاپ ہوا ہے عوام استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔ تاجر سیاستدان سرمایہ خرچ کرکے انتخابات خرید لیتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں پر براجمان ہوکر سیاسی اور سرکاری اثرورسوخ استعمال کرکے ناجائز منافع خوری کرتے ہیں۔ آجکل سی این جی سٹیشنوں کے مالکان گٹھ جوڑ کرکے عدلیہ اور ریاست کے مقابلے میں کھڑے ہوچکے ہیں۔ مالکان کی اکثریت اراکین اسمبلی یا انکے قریبی رشتہ داروں پر مشتمل ہے۔ وہ عدلیہ کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتے۔ اجارہ داری، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو روکنے کیلئے سخت قوانین سازی کی ضرورت ہے مگر سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا کیونکہ قانون ساز اداروں میں تاجر، جاگیردار اور انکے عزیزو اقارب بیٹھے ہیں۔ عوام کا سیاسی شعور ملاحظہ فرمائیں کہ 2004ءسے 2006ءتک جن شوگر ملز مالکان نے عوام کو کھلم کھلا لوٹا عوام نے 2008ءکے انتخابات میں اپنے ووٹ دے کر انہی لٹیروں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیج دیا اور آج وہ ایک بار پھر 2013ءکے انتخابات میں منتخب ہونے کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔ کیا عوام ایک بار پھر استحصال کرنے والے کرپٹ لٹیروں کے یرغمال بن جائیں گے یا بغاوت پر آمادہ ہوں گے اس کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں ہونا ہے۔
وہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں۔۔۔ کبھی پہن کر لبادہ اور کبھی اوڑھ کر نقابیں
چینی غیر قانونی طور پر افغانستان اور سینٹرل ایشین ممالک کو سمگل کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک کے اندر چینی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ جب ڈیمانڈ زیادہ ہو اور سپلائی ضرورت سے کم ہوتو اشیاءکی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں۔ حکومتیں سمگلنگ روکنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں کیونکہ پارلیمنٹ اور بیوروکریسی میں بیٹھے افراد عوام نہیں بلکہ اشرافیہ کے نمائندے ہوتے ہیں جو عوام کے بنیادی حقوق کا دفاع کرنے کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ مارکیٹ اکانومی کے نام پر عوام کا مسلسل استحصال کیا جارہا ہے۔ ایسی معیشت پر ہزار لعنت جو عوام کو غربت اور افلاس کا شکار رکھ کر ملک اور قوم کی اجتماعی ترقی میں رکاوٹ بن جائے۔ شوگر ملز کی طرح سیمنٹ فیکٹریاں اور آٹا ملیں بھی کارٹیل بنا کر عوام کو لوٹ رہی ہیں۔ جاگیردار حکومتیں زمینداروں کو غیر معمولی منافع پہنچانے کیلئے گندم کی قیمت خرید مقرر کرتی ہیں۔ عوام کے مفاد کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ عوام اپنے مقدر کے مالک ہیں۔ وہ اگر ہمت کرلیں تو آنیوالے انتخابات میں جاگیرداروں اور تاجروں کو سیاست سے باہر کرکے اپنا مقدر اور پاکستان کا مستقبل سنوارسکتے ہیں۔ قائداعظم نے جب گورنر جنرل کا منصب سنبھالا تو انہوں نے مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دیدیا اور ایسی کاروباری سرگرمیاں ترک کردیں جن سے انکے ذاتی مفاد اور قومی مفاد کا ٹکراﺅ پیدا ہوسکتا تھا۔ آصف علی زرداری جب پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ نہ دیا اور نہ ہی اپنی کاروباری سرگرمیاں ترک کیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود پارٹی منصب چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔جنرل (ر) حمید گل نے بتایا کہ وہ 1990 میں کور کمانڈر تھے جب میاں نواز شریف پہلی بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کو مشاورت کے لیے رائے ونڈ بلایا گیا۔ وہ اپنے بیٹے عمر گل کے ساتھ رائے ونڈ پہنچے۔ جنرل صاحب نے شریف خاندان کو مشورہ دیا کہ وہ اعلان کردیں کہ جب تک میاں نواز شریف وزیراعظم کے منصب پر فائز رہینگے شریف خاندان کاروبار نہیں کریگا تاکہ Conflict of Interest یعنی ذاتی اور قومی مفاد کا ٹکراﺅ پیدا نہ ہو۔ میاں شہباز شریف نے اس تجویز سے پرجوش اور میاں نواز شریف نے نیم دلانا اتفاق کیا جب کہ میاں محمد شریف مرحوم نے اختلاف کیا۔ 1997ءمیں جب میاں نواز شریف دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو جنرل (ر) حمید گل نے شریف خاندان کو مشورہ دیا کہ احتساب اپنے گھر سے شروع کریں کیونکہ جو حساب دے نہیں سکتا وہ حساب لے نہیں سکتا۔ نیک نام اور قابل فخر چیف الیکشن کمیشن اگر چاہیں تو قانون سازی کرکے تجارت کو سیاست سے الگ کرسکتے ہیں۔
آدمی کی سوچ بھی گروی رہے گی اے عمر۔۔۔ یہ زمیں جب تک رہے گی تاجروں کے ہاتھ میں

ای پیپر-دی نیشن