• news

اتحادوں کی سیاست دو جماعتی نظام کی طرف مثبت پیشرفت

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وفد کے ساتھ رائیونڈ میں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس میں آئندہ انتخابات میں مل کر چلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نے انتخابی تعاون کا معاہدہ کر لیا ہے۔پاکستان میں جلد انتخابات متوقع ہیں۔ عموماً انتخابات کی آمد پر سیاسی پارٹیوں میں نئے اتحاد بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ برسوں کے اختلافات بھلا کر سیاسی قائدین انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد سو سے زائد ہے۔ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جنہوں نے کبھی ایک نشست بھی نہیں جیتی اور ایسی بھی ہیں جو کہنے کو تو سیاسی جماعتیں ہیں لیکن کبھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ چھوٹی پارٹیوں کے بڑی پارٹیوں میں ضم ہونے یا اتحاد میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ ملک دو پارٹی سسٹم کی طرف دو صورتوں میں جا سکتا ہے۔ ایک تو چھوٹی پارٹیاں بڑی ہم خیال پارٹیوں سے اتحاد کر لیں دوسرا یہ کہ انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ مقررہ وقت پر الیکشن ہوتے رہیں اب ایک طرف ن لیگ کے ساتھ جے یو آئی ف‘ فنکشنل لیگ‘ مسلم لیگ ہم خیال جیسی پارٹیاں کھڑی ہو رہی ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے اتحاد کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی اپنے مستقبل کا جلد فیصلہ کر لیں گی۔ ایسے معاملات یقیناً ملک میں دو پارٹی یا کم از کم کثیر کے بجائے قلیل پارٹی سسٹم کی بنیاد بنیں گے۔ اس سے ووٹر کا کنفیوژن بھی کم ہو گا اور چاہے اسکے سامنے امیدواروں کی ایک طویل فہرست ہو‘ قلیل پارٹی سسٹم سے اس کیلئے تین چار امیدواروں میں سے ایک کا انتخاب کرنا آسان رہے گا۔ 

ای پیپر-دی نیشن