بدھ ‘ 16 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 27 فروری2013 ئ
گجرات حلقہ این اے 105 نے ق لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ معاہدے میں دراڑ ڈال دی۔ اسے پنجابی میں کہتے ہیں ”تے ٹُٹ گئی تڑک کرکے“ جس وقت ق لیگ اور پیپلز پارٹی میں مصلحانہ اتحاد ہوا تھا ہمیں تو اسی وقت شک پڑا تھا کہ یہ جبری ناطے زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکیں گے اور جلد یا بدیر اس کا افسوسناک انجام روز بد کی طرح ہمارے سامنے ہو گا۔ اب چودھری پرویز الٰہی صاحب ڈپٹی وزیراعظم کے حلقے سے وزیر دفاع چودھری احمد مختار صاحب بھی الیکشن لڑنے پر بضد ہیں تو دیکھئے یہ دراڑ کب خلیج بن کر دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ کیونکہ مقابلہ دو چودھریوں کے درمیان ہے اور دونوں گجرات کے مایہ ناز فرزند ہیں اور کئی بار میدان مار چکے ہیں۔ اب نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر دونوں جماعتیں یاد رکھ لیں....کچی ٹُٹ گئی جنہاں دی یاریاو پتناں تے رون کھڑیاںاور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دونوں پہلوان دیکھتے رہ جائیں اور کوئی تیسرا کمزور مدمقابل امیدوار بازی جیت لے۔
٭....٭....٭....٭
طاہر القادری شیخ الاسلام کا خود ساختہ ٹائٹل استعمال کر رہے ہیں۔ سکالرز کا شیخ الجامعہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ اب دیکھتے ہیں طاہر القادری صاحب جامعہ الازھر کے سکالرز کی اس جرا¿ت رندانہ پر کون سا بیان قاہرانہ جاری کرتے ہیں،یادش بخیر ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے انکے خلاف فیصلہ آنے پر جس طرح انہوں نے اپنے سابق بیان کہ ”عدالت کا ہر فیصلہ قبول ہے“ اور سابقہ نعروں ” سپریم کورٹ زندہ باد“ سے رجوع کرلیا تھا اور جس غیض و غصب سے دیدے پھاڑ کر دہن وا کرکے چہرے بگاڑ کر سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا تھا اسے دیکھ کر کئی لوگوں نے بے ساختہ کہا تھا.... زباں بگڑی تھی سو بگڑی تھی خبرلیجئے دہن بگڑا اب خدا خیر کرے جامعہ الازھر کے سکالرز کی کہ کہیں وہ بھی غصب طاہرانہ کا شکار نہ ہوجائیں اور حضرت علامہ نت نئے انداز میں ان کیخلاف بھی تو پوں کا منہ کھول دیں،تب ان شریف بچوں کو اندازہ ہوگا کہ ان کا پالا کس پیر خرابات سے پڑا ہے۔
٭....٭....٭....٭
برطانیہ سے مائیکرو بیالوجی میں ماسٹر ڈگری لینے والا نوجوان ” چنے“ فروخت کرنے پر مجبور۔جس معاشرے میں رشوت اور اقربا پروری پرورش پائے وہاں قابلیت اور علم کا زوال اسی طرح دیکھنے میں آتا ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا تھا.... ہر شاخ پہ الو بیٹھتا ہےانجام گلستاں کیا ہوگا جب معاشرے میںان پڑھ وزیر تعلیم قریب المرگ مریض وزیر صحت سب سے بڑا مجرم محتسب اعلیٰ اور سب سے بڑا قانون شکن وزیر قانون بنائے جائیں گے وہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ جوھر قابل کو کون گھاس ڈالے گا۔ وہ بے چارے مونگ پھلیاں، چنے اور سٹے فروخت نہیں کریںگے تو کیا ڈاکے ماریں گے چوریاں کریں گے جبکہ خیر سے یہ کام ہمارے حکمران نہایت نفاست سے پہلے ہی سرانجام دے رہے ہیں۔بچپن سے ہم یہ پیروڈی سنتے آرہے ہیں....پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب بد قسمتی سے آج یہ سب کچھ سچ ہوتا نظر آرہا ہمیں صوبہ خیبر پی کے نوجوان اسد علی سے پوری ہمدردی ہے کہ وہ حکمرانوں کی طرح کسی کو لوٹنے کی بجائے محنت کے بل بوتے پر جی رہا ہے۔
٭....٭....٭....٭
جی ایچ کیومیں چند روز قبل آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے اپنی پسند کے چنداینکر پرسنز،کالم نگاروں اور ممتاز صحافیوںکو بریفنگ کیلئے طلب کیا‘جس میں افغانستان سے نیٹو کی روانگی، بلوچستان میں بد امنی ملک میں دہشت گردی اور گمشدہ افراد کے حوالے سے بات چیت کی” اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی“ کے مصداق پتہ چلا ہے کہ اس محفل خاص میں مدعو چند بڑے بڑے جفا دری قسم کے صحافی اور اینکر پرسن جو بظاہر آمریت کے بہت بڑے دشمن ہیں اور جمہوریت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں بڑے ملجاتے سے آرمی چیف کی شان میں قصدہ خوانی کرتے رہے اور ملک کے ہر درد کا درماں اور تمام مسائل لا ینحل کا حل آرمی کو ہی گردانتے رہے۔ بقول شاعر....پوچھو تو انہیں عمل کے لہجے نہیں آتےباتوں سے کریں قصر پہ جو قصر کی تعمیر اخبارات کے کالم میں اور ٹی وی سکرین پر یہ جمہوریت کے چیمپئن تخلیلے میں آمریت کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ایک ممتاز اینکر پرسن نے تو اگلے روز ہی اپنے پروگرام میں ارشاد فرمایا کہ جنرل کیانی جیسی شخصیت کو مزید ایکسٹینشن دی جانی چاہئے اگر یہ ممکن نہیں تو فوج سے باہر ان کو ان کے شایان شان کوئی بڑا عہدہ عطا کیا جائے.... آپ کچھ اپنی اداﺅں پر ذرا غور کریں ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہوگی یہ کونسا معیار ہے چاپلوسی کا ،ایک جمہوری ملک میں عوام کی زبان ہونے کا دعویٰ کرنے والے کس منہ سے طاقت کا مرکز عوام اور جمہوریت کی بجائے کسی اور ادارے کو بنا رہے ہیں اور اپنے درد کا درماں اسی کوقرار دیتے ہیںجس سے درد ملتا ہے۔