امریکہ کو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کمانڈ سنٹر کیلئے دو منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت
بہتر ہے اس نوعیت کے حساس فیصلے پارلیمنٹ میں کئے جائیں
ایک انگریزی اخبار کی خصوصی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے انجینئروں کو کراچی ایئرپورٹ کے کمپاﺅنڈ میں اپریشن اور کمانڈ سنٹر کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے جہاں سے وہ کسٹمز حکام کے ساتھ منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے مشاورت کرینگے۔ باوثوق ذرائع کے حوالے سے شائع کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں منشیات کی روک تھام کیلئے امریکہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے کمپاﺅنڈ میں اپنا کمانڈ سنٹر قائم کرنے کی اجازت دی ہے‘ جہاں سے وہ ڈرگز سمیت دیگر اشیاءکی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے اقدامات کریگا۔ اس کمانڈ سنٹر کو پاکستانی ڈرگ سیل کی معاونت حاصل ہو گی جبکہ کوسٹ لائن سمگلنگ کی مانیٹرنگ بھی یہاں سے کی جائیگی اور اس سلسلہ میں انٹی نارکوٹکس فورس کی مدد بھی حاصل کی جائیگی۔ اس مجوزہ منصوبہ کے مطابق ایئریورٹ کے کمپاﺅنڈ میں دو منزلہ عمارت تعمیر کی جائیگی‘ جس میں اپریشن اور انوسٹی گیشن کیلئے علیحدہ علیحدہ ونگ ہونگے۔ یہ بلڈنگ سات ہزار سکوائر فٹ پر محیط ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق متذکرہ بلڈنگ تعمیر کرنیوالے ٹھیکیدار کو پاکستان میں بزنس کی بھی اجازت ہو گی۔ اس بلڈنگ کی تعمیر اور مشینری کی تنصیب پر 10 سے 20 لاکھ ڈالر کی لاگت آئیگی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشرے کو سماجی برائیوں سے پاک کرنے اور نوجوان نسل کو بے راہروی کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے منشیات کے ناجائز دھندے پر قابو پانا اور اس میں ملوث ملزمان اور ڈرگ مافیاز کو نکیل ڈالنا ازحد ضروری ہے کیونکہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں فروغ پانے والا منشیات کا ناجائز کاروبار دیگر معاشرتی اور سماجی برائیوں کے فروغ کا بھی باعث بنا ہے جبکہ اس کاروبار میں ملوث افراد اپنی ناجائز آمدنی کے بل بوتے پر قومی سیاست پر بھی اثرانداز ہوئے ہیں جنہوں نے کرپشن کلچر کو فروغ دیکر انتخابی جمہوری نظام کو پراگندہ کیا ہے۔ اس تناظر میں منشیات کی سمگلنگ جیسے قبیح دھندے کو قانون کی گرفت میں لانا ہماری اہم ترین ضرورت ہے جس کیلئے ملک میں نارکوٹکس کنٹرول کا ایک الگ شعبہ وزارت داخلہ کے ماتحت پہلے ہی سرگرم عمل ہے جس کی گرفت میں آکر منشیات کے کئی نامی گرامی سمگلروں کو انسداد منشیات کی خصوصی عدالتوں سے موت تک کی سزائیں بھی مل چکی ہیں۔ اگر اس ادارے کی کارکردگی یا انسداد منشیات سے متعلق قوانین میں کوئی کمی کوتاہی ہے تو اسے پارلیمنٹ میں موثر قانون سازی کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے اور نارکوٹکس کنٹرول فورس کو مزید مستعد اور فعال بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکہ یا کسی دوسر ے ملک سے ماہرین کی معاونت حاصل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تاکہ معاشرے کو پراگندہ کرنیوالے منشیات کے سمگلروں کو نکیل ڈالنے میں کسی قسم کا قانونی جھول پیدا ہو‘ نہ انتظامی گرفت کمزور پڑے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام میں محض معاونت حاصل کرنے کیلئے امریکہ کو کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر وسیع و عریض علاقے پر دو منزلہ عمارت تعمیر کرنے اور وہاں باقاعدہ اپنا کمانڈ سنٹر قائم کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے اگرچہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے کر رکھے ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ کو نہ صرف پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ کی سہولت ملی بلکہ پاکستان میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک قائم کرنے اور ہمارے بعض علاقوں میں زمینی اور فضائی اپریشن تک کی بھی چھوٹ مل گئی۔ اس تناظر میں امریکی انٹیلی جنس اداروں کے ارکان‘ ٹرینرز اور دیگر امریکی باشندوں کی پاکستان میں موجودگی سے سفارت کاری سے متعلق معاملات میں کئی پیچیدگیاں اور قباحتیں بھی پیدا ہوئیں اور پاکستان کی خودمختاری بھی سوالیہ نشان بنی جبکہ امریکی ڈرونز کے اپریشن کیلئے امریکہ کو پاکستان کے تین ایئربیسز زیر استعمال لانے کی اجازت ملنے سے ملک کی سالمیت کا سوال بھی اٹھا جو سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو حملے کے بعد ملک کی سلامتی کیلئے چیلنج بھی بن گیا۔ چنانچہ حکومتی اور عسکری قیادتوں نے باہمی مشاورت سے شمسی ایئربیس امریکہ سے واپس لے لیا اور نیٹو سپلائی کا سلسلہ روک دیا جبکہ اس دوران انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے پر عملدرآمد بھی تعطل کا شکار ہوا۔ پارلیمانی کمیٹی نے پاکستان امریکہ تعلقات کی پالیسی پر نظرثانی کی اور اس صورتحال میں برابری کی بنیاد پر اور ایک دوسرے کی آزادی و خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے باہمی تعلقات فروغ دینے کی فضا ہموار ہوئی جو ہمارے ملکی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی تھی۔ جبکہ اس سے قبل ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی سرپرستی میں ہونیوالی امریکی باشندوں کی متعدد دیگر پراسرار سرگرمیوں سے دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی سرد مہری تک جا پہنچی تھی جو بعدازاں نیٹو سپلائی کی بحالی پر متفق ہونے سے معمول پر آئی جبکہ اب کراچی ایئرپورٹ پر امریکہ کو کمانڈ سنٹر کے قیام کیلئے دو منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت ملنے سے پاکستان امریکہ تعلقات کے معاملہ میں ایک نیا پنڈورا بکس کھلنے کا اندیشہ ہے کیونکہ اس وقت جبکہ امریکہ آئندہ سال افغان جنگ ختم کرکے نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلاءکا اعلان کر چکا ہے‘ کراچی ایئرپورٹ پر اسے‘ چاہے منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے مقاصد کے تحت ہی سہی‘ دو منزلہ عمارت تعمیر کرنے اور وہاں اپنا کمانڈ سنٹر قائم کرنے کی اجازت ملنے سے بادی النظر میں یہی سمجھا جائیگا کہ اس سنٹر کے قیام کا مقصد 2014ءکے بعد بھی اس خطہ بالخصوص پاکستان میں امریکی عمل دخل برقرار رکھنے کا ہے جبکہ اس کمانڈ سنٹر کے باعث پاکستان کیلئے سکیورٹی کے بھی کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور اس سنٹر کی شیلٹر میں امریکی باشندوں کو ریمنڈ ڈیوس جیسی کارروائیاں کرنے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ یہ ایسا کمبل ہے جو ایک بار چمٹ گیا تو پھر اس سے مشکل سے ہی خلاصی ممکن ہو سکے گی۔ بہتر یہی ہے کہ ایسے حساس معاملات پر کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کے ذریعے کیا جائے تاکہ پارلیمنٹ میں پہلے اس نوعیت کے اہم اور نازک ایشوز پر غور و خوض کا موقع بھی مل سکے۔البتہ حیرت کی بات ہے کہ خبر چھپنے کے بعد نہ حکومت‘ نہ آئی ایس پی آر‘ نہ فضائیہ کی طرف سے دانستہ تردید آئی ہے لیکن ان تینوں ذرائع سے رابطے کرنے کے نتیجے میں تینوں نے ہی لاعلمی ظاہر کی۔ آئی ایس پی آر نے اپنی لاتعلقی بیان کرکے فضائیہ کا حوالہ دیا‘ فضائیہ کے پاس کوئی اطلاع نہ تھی‘ ورزارت داخلہ شام تک تردید دینے کا ”سوچ“ رہی تھی۔ یہ تو ہمارے اعلیٰ افسران کا حال ہے۔ کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر امریکہ کو دو منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دینا تو بادی النظر میں اس ایئرپورٹ کو امریکہ کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ شاید یہ اجازت ہمارے اپنے افسروں کی سستی اور غنودگی دیکھتے ہوئے ہی بادل نخواستہ دے دی گئی ہو۔