• news

لاپتہ قیدی کیس: جتنے افراد بغیر ثبوت حراست میں لئے گئے‘ ان کا حساب دینا ہو گا: چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں اڈیالہ جیل سے لاپتہ قیدیوں کو حراست میں رکھنے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی، سیکرٹری فاٹا اور وزارت دفاع کی جانب سے دستاویزات عدالت میں پیش کر دی گئیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک سول اتھارٹی کی معاونت سے متعلق ضابطے مﺅثر رہیں قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں، آرمی نظرثانی بورڈ نے ملزمان کا میڈیکل معائنہ کروایا جبکہرہائی سے متعلق بورڈ کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں کی رہائی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ عدالت نے سماعت کے اختیار کے تعین پر دلائل دینے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ شخصی آزادی کا معاملہ ہے جسے لامحدود مدت پر نہیں چھوڑا جا سکتا، جتنے افراد بغیر ثبوت کے تحویل میں لئے گئے ان کا حساب دینا ہوگا۔ فورسز کو طلب کرنے کے 5 نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں آرٹیکل 245 کا ذکر نہیں، اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ اس کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس نے کہا اب 1999ءجیسے حالات نہیں پانچ چھ آدمیوں کی خاطر یہ نہیں کیا جاسکتا کہ فوج بلا لی جائے۔ سیکرٹری فاٹا نے نظرثانی بورڈ کے قیدیوں کی حراست جاری رکھنے سے متعلق حکم نامے پیش کئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان دستاویزات میں ایسے شواہد نظر نہیں آتے کہ حراست برقرار رکھی جائے۔ پانچ اجلاسوں کے ریکارڈ پر قیدیوں کا موقف بھی موجود نہیں۔ لاپتہ افراد کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک قیدیوں کو ایجنسیوں کی تحویل میں رکھا گیا۔ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملنے پر خصوصی قواعد بنائے گئے۔ یہ غیر آئینی حراست ہے، 1952ءکا آرمی ایکٹ ایک مکمل قانون ہے جس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سماعت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ ہم آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں کر رہے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی اچھا نہیں لگتا تو اس کی گرفتاری کے آرڈر کردیئے جائیں یہ تو مارشل لا میں ہوا ان افراد کے گرفتاری کے آرڈرز ہی غلط ہیں انٹی ٹیرارسٹ کورٹس ملزمان کو بے گناہ قرار دے کر رہا کر چکی ہیں انہیں پھر جیل سے اٹھا لیا گیا اور کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کئے جا رہے عدالت ان کی رہائی کا حکم دے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2 گرنیڈ اور ایک کلاشنکوف برآمد کرکے آپ نے انہیں ایک سال سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے اجرا کے وقت اٹارنی جنرل سے مشاورت نہیں کی گئی، آپ کو مشاورت میں شامل کیا جانا چاہئے تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کبھی اس طرح کی مشاورت میں شامل نہیں رہا، اس نوٹیفکیشن کے جاری کرتے وقت میں اٹارنی جنرل ہی نہیں تھا۔ قیدیوں کی حراست سے متعلق سیکرٹری فاٹا نے بھی دستاویزات عدالت میں پیش کیں، سپریم کورٹ نے قیدیوں کی حراست میں توسیع کی سیکرٹری فاٹا کی رپورٹ مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کاغذی کارروائی ہے، ثبوت کہاں ہیں، شواہد لائیں۔ قیدیوں کے وکیل نے کہا کہ قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو ملک چھوڑ دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی دنیا بھی چھوڑ دے ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن