الیکشن کے التوا کا خواب میں بھی نہیں سوچنے دیں گے: سپریم کورٹ‘ کراچی میں منصفانہ حد بندیوں کا فیصلہ برقرار‘ الیکشن کمشن کی نظرثانی کی درخواست مسترد
کراچی (وقائع نگار + بی بی سی + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے کراچی میں انتخابی حلقہ بندیوں میں رد و بدل کا فیصلہ م¶خر کرنے کے بارے میں الیکشن کمشن کی درخواست مسترد کر دی ہے اور انتخابات سے قبل منصفانہ حد بندی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ حلقوں کی حدود میں رد و بدل آئین کے آرٹیکل 51 اور حد بندی ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ الیکشن کمشن کے وکیل منیر پراچہ کا کہنا تھا کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں کم وقت رہ گیا ہے اور الیکشن کمشن کی نگاہ شفاف عام انتخابات پر ہے۔ انہوں نے اپنا پرانا م¶قف دہرایا کہ مردم شماری سے پہلے حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں، اس لئے حکم کو م¶خر کیا جائے کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے باعث الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں۔ جسٹس عارف حسین خلجی کا کہنا تھا کہ حکم م¶خر کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ نے غلط حکم جاری کیا تھا، اسی لئے واپس لیا گیا۔ الیکشن کمشن کے وکیل منیر پراچہ کا کہنا تھا کہ ان کا ہر گز یہ مطلب نہ تھا، دراصل انتخابات میں 67 دن رہے گئے ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے الیکشن کمشن سے سوال کیا کہ الیکشن کب کرائیں گے؟ الیکشن کمشن کے وکیل منیر پراچہ نے انہیں آگاہ کیا کہ قومی اسمبلی کی مدت 16 مارچ کو پوری ہو رہی ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے متنبہ کیا کہ کسی کو بھی انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور کسی کو خواب میں بھی اس بارے میں دیکھنے اور سوچنے نہیں دیں گے۔ بقول ان کے وہ انتخابات ملتوی کرانے کے بارے میں ایک لفظ بھی سنننے کو تیار نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کی اس بنچ کے سربراہ جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ 28 اکتوبر کو الیکشن کمشن کے سیکرٹری کے بیان کی روشنی میں یہ حکم جاری کیا گیا تھا، لگتا ایسا ہے کہ الیکشن کمشن اور حکومت کی خواہش نہیں ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے واضح کیا کہ حلقے بنانے اور حدود میں رد و بدل کرنے میں فرق ہے، حکم پر عمل درآمد کی راہ میں آئین اور ڈی لمیٹیشن ایکٹ رکاوٹ نہیں ہے۔ بقول ان کے 2011ءمیں حکم آیا اور 2013ءمیں حکومت دوسرا م¶قف پیش کر رہی ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے تسلیم کیا اور عدالت کے حکم پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔ جسٹس عارف حسین خلجی کا کہنا تھا کہ نئے حلقے بنانے کے لئے مردم شماری ضروری ہے لیکن حلقوں کی حدود میں رد و بدل کے لئے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن کے لئے بدنیتی کا لفظ استعمال نہیں کریں گے حالانکہ عدالت کے واضح حکم کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ منصفانہ حد بندیوں کے لئے حکم جاری کیا تھا حلقہ بندیوں کے لئے نہیں، اس حکم سے قومی اسمبلی کی نشستیں نہ بڑھ سکتیں اور نہ ہی کم ہو سکتی ہیں۔ جسٹس سرمد جلال نے واضح کیا کہ آئین کا آرٹیکل 51 قومی اسمبلی کے نشتسوں کے بارے میں ہے ان کا حد بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دریں اثنا سماعت کے موقعے پر عدالت نے آئی جی سندھ پولیس فیاض لغاری کا معافی نامہ قبول کر لیا ہے جس کے بعد ان کے خلاف شوکاز نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ جرائم میں ملوث 800 افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، ان میں سے کچھ معطل ہو چکے ہیں جب کہ دیگر کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ دوران سماعت جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے مصلحتوں کا زمانہ گزر گیا اب صرف آئین کی بات ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری الیکشن کمشن عدالتی حکم پر عمل کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ حلقوں کی تعداد بڑھانا اور ازسر نو تشکیل مختلف معاملات ہیں الیکشن کمشن کے وکیل منیر پراچہ کا کہنا تھا کہ وقت کم ہے کمشن الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے، جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کا حکم ماننا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے اگر آپ عملی طور پر یہ نہیں کر سکتے تو یہ اور بات ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ نہ دستور اور نہ ہی ڈی لمیٹیشن ایکٹ سپریم کورٹ کے حکم مین رکاوٹ ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ایسی حد بندی نہیں چاہتے کہ ایک میں 25 اور دوسرے حلقہ میں پانچ لاکھ ووٹرز ہوں۔ عدالت نے قرار دیا کہ حلقوں کی نئی حد بندی کے حکم پر عمل میں آئین کا آرٹیکل 51 اور نہ ہی ڈی لیمٹیشن ایکٹ رکاوٹ ہے عدالت نے قرار دیا کہ اس نے وطن پارٹی کیس میں حلقوں کی نئی حد بندی کرنے کا حکم دیا تھا نہ کہ اسمبلیوں کی سیٹیں بڑھانے یاکم کرنے کا حکم دیا تھا عدالت نے قرار دیا کہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق عدالت کا حکم 2011ءکا ہے اب الیکشن کمشن نیا م¶قف پیش کر رہا ہے حالانکہ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان عدالتی حکم پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ نئی حلقہ بندیاں انصاف کی بنیاد پر ہونی چاہئیں تاکہ تمام لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمشن حد بندیوں کے عدالتی فیصلہ پر عمل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ دل میں ہی کھوٹ ہے اسی لئے بہانے کئے جا رہے ہیں، عدالت نے کہا ہم الیکشن کمشن کے لئے بدنیتی کا لفظ استعمال نہیں کریں گے یہ لگتا ہے کہ الیکشن کمشن نے جان بوجھ کر اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق اس کے حکم پر عملدرآمد کیا جائے۔ آئی جی سندھ نے جرائم مےں ملوث پولےس افسران کی رپورٹ عدالت مےں جمع کرا دی رپورٹ مےں بتاےا گےا ہے کہ سنگےن جرائم مےں ملوث 1464 سے زائد پولےس افسران اور اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹا دےا گےا ہے معطل کئے گئے اہلکاروں مےں سے 800 سے زائد کراچی مےں تعےنات تھے عدالت نے کراچی عملدرآمد کےس کی مزےد سماعت آج (جمعرات) تک ملتوی کر دی۔ عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ کی بنائی گئی موٹر وہیکل قانون میں ترمیم کی سمری مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو حکم دیا کہ 3 دن میں نئی سمری بنا کر پیش کی جائے۔ دوران سماعت جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ 1969ءمیں 100 روپے کا ایک تولہ سونا آتا تھا۔ سمری میں جرمانوں کے چارجز میں اضافہ کریں۔ کم از کم 5 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے۔ فٹنس سرٹیفکیٹ نہ رکھنے والی گاڑی کا 100 روپے جرمانہ اس دور میں رکھا گیا تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ماضی میں جرمانے بڑھائے گئے تو ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال کر دی۔ جسٹس جمالی نے کہا کہ اتنا جرمانہ ہونے سے جرم کرنے والے کو ڈر ہوتا ہے کہ اس کی دیہاڑی چلی جائے گی۔ عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ کہیں ٹرانسپورٹ کہیں ٹینکر اور کہیں قبضہ مافیا کا راج ہے۔ ہم کچھ کہیں تو پھر خبر لگتی ہے سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ہڑتالوں میں بسیں جلا دی جاتی ہیں۔ جسٹس خلجی عارف نے استفسار کیا کہ کیا شہر میں چلنے والی گاڑیاں اس قابل ہیں کہ ان میں سفر کیا جا سکے؟ خبر کوئی بھی لگے قانون کی پاسداری اور عوام کے حقوق کا تحفظ جاری رکھیں گے۔ اے جی سندھ نے کہا کہ حکومت کو تجویز دی ہے کہ جو ہڑتال کی کال دے گاڑیاں جلنے کا جرمانہ اس سے لیا جائے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ سندھ میں پنجاب کی طرح سرکاری ٹرانسپورٹ کا نظام کیوں نہیں بنایا جاتا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ نے سمری میں پچاس روپے والا جرمانہ 100 روپے اور سو روپے والا ڈیڑھ سو روپے کر دیا۔ بسوں کو 200 اور 400 جرمانہ لیکر چھوڑا جائے گا تو ٹریفک کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ ایک جملہ کہہ دیں سندھ کے عوام کیلئے کچھ کرنا ہی نہیں۔