گرینڈ قبائلی جرگہ کو طالبان سے مذاکرات کا اختیار ‘ جے یو آئی ف کے زیراہتمام اے پی سی کا5 نکاتی اعلامیہ جاری
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نامہ نگار + نوائے وقت رپورٹ) فاٹا میں امن کے لئے جے یو آئی (ف) کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق گرینڈ قبائلی جرگہ کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طالبان سمیت تمام فریقین سے مذاکرات کا اختیار دے دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی رہنمائی میں گرینڈ جرگہ فریقین سے مذاکرات شروع کرے، موجودہ گرینڈ جرگہ کو وسعت دی جائے، قبائلی علاقے اور خیبر پی کے میں امن جرگہ کی حمایت کی گئی ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بدامنی کے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ طالبان سے مذاکرات آئین پاکستان کے دائرہ کار میں رہ کر کئے جائیں گے، متعلقہ قوانین اور حکومتی رٹ کو یقینی بنایا جائے گا۔ اعلامیے کے مطابق موجودہ، عبوری اور آئندہ حکومت طے شدہ سفارشات پر عملدرآمد کی پابند ہو گی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی رہنماو¿ں نے اعلامیہ میں طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کا مثبت جواب دینے پر زور دیا۔ سیاسی قیادت اور قبائلی عمائدین نے حکومت سے وقت ضائع کئے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں حکومت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے مذاکرات کے لئے لائحہ عمل تیار کرے اور جتنی جلد ممکن ہو سکے غیروں کی جنگ سے خود کو الگ کر دیا جائے۔ اے پی سی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے شہداءکے لواحقین اور زخمیوں کے لئے ٹرسٹ قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ پانچ نکاتی اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ (1) پہلے سے موجود قبائلی امن جرگے کو وسعت دی جائے۔ (2) شہیدوں اور زخمیوں کیلئے شہداءٹرسٹ بنایا جائے۔ (3) سیاسی و مذہبی قائدین کی رہنمائی میں گرینڈ قبائلی جرگہ طالبان سے مذاکرات شروع کرے۔ (4) دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ (5) ان مذاکرات کی حمایت کریں گے جن سے ملک میں آئین اور قانون قائم ہو۔ موجودہ نگران اور آئندہ حکومت تجاویز عملدرآمد کی پابند ہو گی۔ پانچ نکاتی اعلامیہ پر تمام فریقین نے دستخط کئے اور اسے منظور کیا۔ دریں اثناءپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کامیاب رہی۔ تمام جماعتوں نے قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اے پی سی نے قبائلی جرگے کی مکمل حمایت کی ہے۔ آج شام 4 بجے پشاور میں قبائلی جرگہ ہو گا۔ آج سے کانفرنس کی تجاویز پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ قومی قائدین کے اتفاق رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جرگہ گورنر خیبر پی کے سے ملاقات کرے گا۔ قیام امن کے لئے جہاں جانا پڑا جائیں گے۔ مذاکرات میں طالبان بھی فریق ہیں۔ موجودہ، نگران اور آئندہ حکومت تجاویز پر عملدرآمد کی پابند ہو گی۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ابوالخیر محمد زبیر، محمود خان اچکزئی، احمد لدھیانوی اور آفتاب شیرپا¶ بھی موجود تھے۔ بی بی سی کے مطابق اعلامیہ کے اعلان سے قبل بدامنی کی جگہ دہشت گردی کا لفظ تھا جسے حتمی اعلامیہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ دریں اثناءقبائلی جرگہ، قبائلی علاقوں میں طالبان سے مذاکرات کے لئے آج گورنر خیبر پی کے سے ملاقات کرے گا۔ قومی قیادت نے جرگہ کو فریقین سے مذاکرات شروع کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ جرگہ میں وسعت کے لئے آج پشاور میں مشاورتی اجلاس ہو گا۔ کل جماعت کانفرنس کے اے پی سی کے مطابق حتمی تجاویز مرتب کر کے آج ہی مرتب کر کے آج ہی گورنر خیبر پی کے سے ملاقات کی جائے گی تاکہ طالبان سے مذاکرات شروع ہو سکیں۔ مشترکہ اعلامیہ پر مولانا فضل الرحمن، راجہ ظفر الحق، امین فہیم، فاروق ستار، محمود اچکزئی، ساجد نقوی، میر حاصل بزنجو، چودھری شجاعت، محمد علی درانی، حاجی عدیل سمیت 20 سے زائد قائدین کے دستخط۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی آل پارٹیز کانفرنس کے 3 سیشن ہوئے۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + اے پی اے) جے یو آئی (ف) کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی سے خطاب کے دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف، جے یو آئی (ف) کے امیر فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن اور دیگر سیاسی رہنما¶ں نے طالبان سے مذاکرات کی مکمل حمایت کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فوج کو اعتماد میں لئے بغیر طالبان سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اے پی سی قبائلی گرینڈ جرگہ کی خواہش پر بلائی گئی ہے۔ قبائلی علاقوں میں امن کا قیام افغانستان میں امن پر منحصر ہے، جو ہو چکا اسے بھلا کر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے۔ فضل الرحمن نے پاکستان پیپلزپارٹی کی کانفرنس میں شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ابھی تک طالبان سے مذاکرات کی پالیسی واضح نہیں کی۔ اے پی سی فیصلہ کرے کہ قبائلی علاقوں کو صوبے کی حیثیت دی جائے یا پھر ان کی موجودہ حیثیت برقرار رکھی جائے۔ اے پی سی امن کی طرف بڑھنے والا اہم قدم ہے اور امید ہے اس سے ملک میں امن کے قیام میں مدد ملے گی۔ مشاورت کی بنیاد پر قدم آگے بڑھائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف نے کہا کہ حکومت طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدہ لے اور اس کا مثبت جواب دے، ملکی حالات انتہائی گھمبیر ہیں ہمیں مشاورت سے آگے بڑھنا چاہئے، دنیا میں امن ہمیشہ جنگوں سے نہیں مذاکرات سے قائم ہوا ہے، قیام امن کے لئے ڈرون حملے بند کئے جائیں، ملک معاشی اور معاشرتی طور پر تباہ حالی کا شکار ہے، کوئٹہ میں ایک ماہ میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات ہوئے، امریکہ نے ایبٹ آباد میں پاکستانی خودمختاری کو پامال کیا اور حکمران مبارک بادیں دیتے رہے، کمشن کی رپورٹ دو سال گزرنے کے باوجود جاری نہیں کی گئی، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ ملک کے کسی حصے میں دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہو گا۔ اس کانفرنس کو بہت پہلے منعقد ہونا چاہئے تھا اس سے پہلے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہوئی ایک اچھی ابتدا تھی لیکن عملدرآمد نہ ہوا۔ بعدازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا مگر متفقہ قراردادوں پر ایک انچ بھی عمل نہ ہوا اس کے بعد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ صورتحال خراب ہو گئی۔ بعدازاں سانحہ ایبٹ آباد رونما ہوا اور اس کے بعد قومی قیادت کو اکٹھا کیا گیا لیکن متفقہ لائحہ عمل کے آنے کے باوجود کچھ عمل نہ کیا گیا صرف ایک کمشن بنایا گیا لیکن اس کی رپورٹ دو سال ہونے کو ہیں ابھی تک نہیں آئی۔ امریکہ نے رات کے اندھیرے میں ہماری سرزمین کو پامال کیا لیکن دوسری جانب فتح کی مبارکبادیں دی گئیں، برطانیہ سمیت دنیا کے تمام مہذب ممالک نے ڈرون حملوں کی مخالفت کی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ڈرون طیارے اڑائے ہی پاکستان سے جاتے ہیں اور ان کا نشانہ بھی پاکستان ہی بنتا ہے جو بے حسی اور بے بسی کی انتہا ہے۔ اے این پی نے اچھی شروعات کیں اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اسے آگے بڑھایا جو مستحسن اقدام ہے۔ قبائلی عوام مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، ہمیشہ تحفظ پاکستان کے لئے انہوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ نوازشریف نے کہا کہ طالبان کی مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور حکومت کو مثبت جواب دینا چاہئے اور مشاورت سے آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ آج ملک کے حالات انتہائی گھمبیر ہیں جب تک تمام جماعتیں آگے باہمی اعتماد کے ساتھ نہیں بڑھتیں اس وقت تک ملک کو مشکلات سے نہیں نکالا جا سکتا۔ میں گذشتہ چار سال سے کہہ رہا ہوں کہ سیاسی جماعتیں آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر آگے بڑھیں تب ہی ملک کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے۔ صرف اس بات پر توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہئے کہ ہم نے حکومت بنانی ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ حکومت بنانے کے بعد اسے چلانا کیسے ہے اس کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ ہم پورے ملک سمیت خطے میں امن کے حامی ہیں بدامنی کے باعث ملک معاشی مشکلات کا شکار ہوا اور پاکستانی سرمایہ کار ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ملک میں بدامنی کا یہ عالم ہے کہ دن دیہاڑے چین کے باشندوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے ایک ماہ میں کوئٹہ میں 90، 90 نعشیں گر جاتی ہیں، بدامنی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی ہمیں بتایا جائے کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد کیا اقدامات اٹھائے گئے، کون سی ضمانت دی گئی کہ کوئٹہ یا ملک کے کسی حصے میں دہشت گردی کا اس طرح کا بڑا سانحہ رونما نہیں ہو گا کیا انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید متحرک کیا گیا ہے؟ لوڈشیڈنگ کا معاملہ بھی ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے، نئے پراجیکٹ لگانے، کوئلہ و دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے لئے پیسے تک نہیں ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے ہیں، ملک کو اربوں کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے، قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کےلئے مزید قرضے لئے جا رہے ہیں ایسی صورتحال میں ملک معاشی طور پر کیسے بہتر ہو گا؟ محکمہ پولیس کا یہ حال ہے کہ پولیس چالان مکمل نہیں کرتی اور دہشت گرد اس نظام کے باعث عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں گواہوں کو کوئی تحفظ نہیں دیا جاتا یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اگر حالات کی سنگینی کا احساس نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ سیاسی قیادت مل کر سوچے اور سیاست اور الیکشن سے بالاتر ہو کر پاکستان بچانے کی طرف پیشرفت کریں۔ قبائلی زعماءکو یقین دلاتے ہیں کہ ہم مخلص ہو کر یہاں آئے ہیں آل پارٹیز کانفرنس میں شامل تمام جماعتیں، رہنما اور قبائلی زعماءہمیں بتائیں ہم نے کیا کرنا ہے ہم حاضر ہیں اور قیام امن کےلئے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے جذبات کی قدر کرتا ہوں ڈاکٹر قدیر کی مدد سے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور ان کے ساتھ مل کر ایٹمی دھماکے کئے۔ جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو میں نے محسن پاکستان سے کہا تھا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینگے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ایٹم بم کے ساتھ ساتھ معاشی بم بھی بنانا ہو گا۔ (ق) لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا قبائلی عوام کی حب الوطنی شکوک سے بالاتر ہے، انہیں دہشت گرد کہنے سے گریز کیا جائے، انہیں دہشت گرد کہنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں، ہم امن کے لئے ہر حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، عراق جنگ میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ چند ماہ کےلئے وزیراعظم بنے تھے تو قیام امن کےلئے 5 دن کے اندر اندر اعلیٰ سطحی کانفرنس بلائی جس میں عسکری قیادت کے ساتھ سیاسی قیادت کو بھی مدعو کیا اور واضح روڈ میپ دیا اگر آج بھی اس پر عملدرآمد ہو جائے تو امن قائم ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے اس نے متفقہ قراردادیں منظور کیں۔ ہماری جماعت ان تمام چیزوں کی حمایت کرے گی جو آئین و قانون کے اندر ہوں گے اور جو بھی آل پارٹیز کانفرنس میں فیصلہ کیا جائے گا اسے قبول کریں گے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کی لگائی ہوئی آگ کی وجہ سے ہی آج ملک بدامنی کا شکار ہے، قبائلی علاقوں میں بھیجا گیا تو جانے کے لئے تیار ہوں، کسی یہودی کی بجائے غیرت مند پٹھان کی گولی کھانا پسند کروں گا، اپنے کالم میں طالبان کو درپیش مشکلات و مسائل کا ذکر کیا تو مجھے طالبان کا ترجمان کہا گیا، خدشہ ہے کہ میاں نوازشریف، مولانا فضل الرحمن، منور حسن اور مخدوم امین فہیم کو بھی یہی نام دئیے جائیں گے۔ پرویز مشرف ملک کا غدار ہے اس نے ملک کو بیچا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ معین الدین حیدر نے انہیں بتایا کہ مشرف نے کسی سے پوچھے بغیر ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دئیے، پرویز مشرف کی لگائی ہوئی آگ کی وجہ سے ہی آج ملک بدامنی کا شکار ہے۔ نوازشریف کے ساتھ مل کر ایٹمی دھماکے کئے، نوازشریف نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ مخدوم امین فہیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ قیام امن کے لئے ہر کوشش کا ساتھ دیں گے۔ مذاکرات کے لئے پاکستان کے آئین، قوانین اور حکومتی رٹ کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے کہا کہ خطہ خطرناک جنگ کی زد میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی اچھا اقدام ہے۔ سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپا¶ نے کہا کہ اے پی سی میں سیاسی قائدین کے ساتھ قبائلی عمائدین کی شرکت خوش آئند ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا طالبان کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دیا جائے۔ اے پی سی تاخیر سے بلائی گئی موجودہ پارلیمانی نظام کی مدت ختم ہونے کو ہے اقدامات کے لئے وقت میسر نہیں۔ انہوں نے کہا قبائلی علاقوں میں آپریشن امریکی ایما پر شروع نہیں کیا تو خاتمے کا اختیار بھی ہمیں ہونا چاہئے۔ وزیر اطلاعات خیبر پی کے میاں افتخار حسین نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دینا ہو گی، مذاکرات ناکام ہو جائیں تو تمام فریقین کو آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کا اختیار ہو گا۔ قبائلی جرگہ کے سربراہ ملک قادر خان نے کہا کہ جب بھی قبائل کا ذکر آتا ہے تو انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے، قبائلی امن پسند لوگ ہیں، دہشت گردی ہمارے خلاف ہو رہی ہے آج ہمارے پاس ایٹم بم ہے تو ہم کیوں ڈر رہے ہیں۔ (ق) لیگ کے رہنما مشاہد حسین نے کہا کہ بھارت سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو طالبان سے بات چیت کیوں نہیں ہو سکتی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف، (ق) لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین، پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم، متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاو¿، تحریک تحفظ پاکستان کے ڈاکٹر عبدالقدیر اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان سمیت ملک کی 32 سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اہم شخصیات شریک ہوئے۔ پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ طالبان کا ضامن میں ہوں، نوازشریف، مولانا فضل الرحمن اور منور حسن جہاں چاہیں مذاکرات کو تیار ہیں، ایجنسیاں چاہیں تو پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے ، افواج پاکستان ہمیں بہت عزیز ہے لیکن اب تماشا ختم کرنا ہو گا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو آپس کا شور شرابہ ختم کر کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہو گا، ایف سی آر کو فوری طور پر ختم کر کے قبائلی رہنماﺅں کا ایک جرگہ تشکیل دیا جائے جو اپنا گورنر نامزد کر کے صدر پاکستان سے کسی بھی مسئلے پر براہ راست بات کر سکے، قبائلیوں کی خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے اگر وہ اٹھ گئے تو ملک کو ”بھسم“ کر دیں گے۔ قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں مگر یہ نتیجہ خیز ہونے چاہئیں۔
اے پی سی / قائدین کا خطاب