• news

بنگلہ دیش: نائب امیر جماعت اسلامی دلاور حسین کو سزائے موت‘ ہنگامے‘ جھڑپیں‘35 جاں بحق ‘300 زخمی

ڈھاکہ + لاہور (نوائے وقت نیوز + خصوصی نامہ نگار + نیوز ایجنسیاں) بنگلہ دیش میں مبینہ جنگی جرائم اور دیگر 8الزامات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نائب امیر دلاور حسین سیدی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ جس کے بعد ملک بھر میں مظاہرے اور ہنگامے شروع ہوگئے، جھڑپوں اور پولیس کی فائرنگ سے 35افراد جاں بحق اور 300 زخمی ہو گئے۔ دلاور حسین کو جون 2010ءمیں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 1971ءکے دوران قتل عام، ریپ اور دیگر الزامات پر قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ ادھر جماعت اسلامی نے ٹربیونل کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ہڑتال کا اعلان کردیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دلاور حسین اور دیگر رہنماﺅں پر سیاسی بنیادوں پر الزامات عائد کئے گئے۔ عدالتی فیصلے کے بعد ڈھاکہ سمیت ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے۔ پنہا، سراج جنگ، دومتھاپکر، ڈھاکہ سمیت دیگر شہروں میں احجاج ہوا۔ ادھر ڈھاکہ میں حکومت کے حامیوں نے سزا کے حق میں ریلی نکالی اور اسے خوش آئند قرار دیا۔ پولیس کے مطابق گیاندا پولیس سٹیشن پر دیسی بم پھینکے گئے، 4 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ جماعت اسلامی کے 10 ہزار کارکنوں نے حملہ کیا، جواب میں فائرنگ کرنا پڑی، 22 افراد فائرنگ سے مارے گئے۔ بنگلہ دیش میں 21 جنوری کے بعد پرتشدد مظاہروں کے دوران اب تک 46 افراد مارے جا چکے ہیں۔ دلاور حسین کے وکیل نے کہا ہے کہ فیصلے سے انصاف کا قتل عام کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دلاور حسین اس علاقے میں موجود ہی نہےں تھے جہاں یہ واقعہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فیصلے سے صدمہ پہنچا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ معروف مفسر قرآن مولانا دلاور حسین سیدی کو سزائے موت بنگلہ دیشی حکومت کا سنگین جرم اور سراسر سیاسی فیصلہ ہے جو برادر اسلامی ملک کو خانہ جنگی میں جھونک سکتا ہے۔ حقوق انسانی کے عالمی کمشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تمام تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی اس کھلی پامالی کا فوری نوٹس لیں۔ حکومت پاکستان کو اس سزا پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ ادھر حکومتی حامیوں نے جماعت اسلامی کے رہنما کو سزا پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کئے۔جماعت اسلامی کے رہنما کو سزا کیخلاف سینکڑوں بنگلہ دیشی شہریوں نے اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کیا۔ بچے اور خواتین بھی موجود تھیں۔

ای پیپر-دی نیشن