فتح مباہلہ و ختم نبوت کانفرنس اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
فتح مباہلہ و ختم نبوت کانفرنس جہاں ایک طرف اتحاد امت کا عملی مظاہرہ ہے ،وہاں ملک کی موجودہ صورت حال میں قیام امن، اتحاد بین المسلمین کے فروغ ، فرقہ واریت کے خاتمے اور امت مسلمہ میں ختم نبوت کے عقیدے کے تحفظ کی علامت ہے۔ اس لےے کہ اگر حضور تاجدار انبیاءمحمد کے بعد کسی نبی کا آنا مان لیا جائے تو خدا کی خدائی باقی رہتی ہے نہ حضور کی ختم نبوت۔ امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ کا تو یہ فتویٰ ہے کہ حضور خاتم الانبیاء کے بعد مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا یا معجزہ مانگنا بھی کفر ہے۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مدعی نبوت پر ایمان لانا تو کجا اس سے دلیل طلب کرنا کفر قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح خدا نے اپنی خدائی اپنے آپ پر ختم کردی اسی طرح نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم کردیا گیا ہے ۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے جو عظیم قربانی دی وہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور جمیع صحابہ کرام ؓکی نظر میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جو اہمیت تھی اس کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب سے جو معرکہ ہوا اس میں بائیس ہزار مرتدین قتل ہوئے اور 1200کے قریب صحابہ کرام ؓنے جام شہادت نوش فرمایا جس میں600 کے قریب تو حفاظ اور قراءتھے۔ اس موقع پرصحابہ کرام نے جانوں کا نذرانہ تو پیش کر دیا مگر اس عقیدہ پر آنچ نہ آنے دی۔
حضور کی حیات طیبہ میں دین اسلام کیلئے شہید ہونے والے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں و بوڑھوں اور نوجوانوں کی تعداد 259 ہے اور اس دوران قتل ہونے والے کفار کی کل تعداد 759 ہے ۔ دین کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین اب قیامت تک باقی رہے گا‘ اب اس میں کسی تبدیلی‘ کسی اضافہ‘ کسی ترمیم کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے تو انبیاءکرام ؑکی بعثت کا مقصد بھی مکمل ہوچکا‘ لہٰذا آنحضرت کے بعداب نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ کسی نبی کی گنجائش۔ لہٰذا آپ کی رسالت کے ساتھ ساتھ آپ کی ختم نبوت کا بھی اعلان کردیا گیا اور نبوت و انبیاءکا جو سلسلہ حضرت آدم ؑسے شروع ہوا تھا‘ وہ سلسلہ آنحضرت پر ختم کردیا گیااور آپ کی امت آخری امت ہے جس کے بعد کوئی امت نہیں۔
قرآن کریم نے بھی بہت وضاحت اور صفائی کے ساتھ بتایا ہے کہ حضرت محمد کے آخری نبی ہیں اور احادیث مقدسہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے بلکہ قرآن کریم و احادیث میں جس کثرت اور تواتر و قطعیت کے ساتھ عقیدئہ ختم نبوت کو بیان کیا گیا ہے‘ اس کی نظیر بہت کم ملے گی۔ قرآن و احادیث کے علاوہ امت کا روز اول سے اجماع چلا آرہا ہے۔خود آنحضرت نے اپنے آخری دور میں سب سے پہلے جھوٹے مدعیان نبوت کا خاتمہ کرکے امت کے سامنے اس کام کا عملی نمونہ پیش کیا چنانچہ یمن میں عبہلہ نامی ایک شخص جس کو اسود عنسی کہاجاتا تھا، نے سب سے پہلے ختم نبوت سے بغاوت کرکے اپنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ، اس کے جواب میں آنحضرت نے اہل یمن کو اس سے قتال وجہاد کا باقاعدہ تحریری حکم صادر فرمایا اور بالآخر حضرت فیروز دیلمی ؓ کے خنجر نے نبوت کے اس جھوٹے دعویداری کا آخری فیصلہ سنادیا۔
انیسویں صدی کے آخر میںبے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک جھوٹی اور خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جس کی تمام تر وفاداریاں سلطنت برطانیہ کے ساتھ تھیں۔ اس لیے انگریز حکمرانوں نے بھی اس خود کاشتہ پودے کی خوب آبیاری کی۔ مرزا غلام احمد نے ملکہ برطانیہ کی خوشنودی کیلئے خطوط لکھے، حکومت برطانیہ کے عوام میں راہ ہموار کرنے کے لیے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا۔مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماءکرام اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے ۔ خدا کی قدرت دیکھئے کہ اس فتنہ کی پیدائش سے قبل ہی دارالعلوم دیوبند کے مورث اعلیٰ سیّد الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا تھا کہ ہندوستان میں ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں ایک دن انہوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے فرمایا: ”ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا‘ تم ضرور اپنے وطن واپس چلے جاﺅ‘ اگر بالفرض تم ہندوستان میں خاموش بھی بیٹھے رہے تو وہ فتنہ قوت نہ پکڑسکے گا اور ملک میں سکون ہوگا‘ پیر مہر علی گولڑوی فرماتے ہیں کہ :”میرے نزدیک حاجی صاحب فتنہ سے مراد فتنہ قادیانیت تھی۔“ (آئینہ قادیانیت، صفحہ118)
علامہ سیّد انور شاہ کشمیری گویا کہ اس فتنہ کے خاتمہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے ۔ امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابین تصنیف کیں بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا‘ جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ‘ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ‘ مولانا مناظر احسن گیلانی ‘ مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا محمد علی جالندھری ، مولانا محمد یوسف بنوری‘ مولانا ثناءاللہ امرتسری‘ مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خان اور علامہ محمد اقبال کو تیار و آمادہ کیا۔
امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنے شاگردوں سے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ اور ردِ قادیانیت کے لئے کام کرنے کا عہد لیا اور اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حضرت مولانا سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری کو امیر شریعت مقرر کیا۔
حضرت مولانا خواجہ خان محمد فرمایا کرتے تھے کہ: ”نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰة‘ تبلیغ اور جہاد جیسے فرائض کا تعلق حضور اکرم کے اعمال سے ہے اور ختم نبوت کا تعلق حضور کی ذاتِ مبارک سے ہے‘ ختم نبوت کی پاسبانی براہِ راست ذات اقدس کی خدمت کے مترادف ہے۔“
مرزا قادیانی کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کوششیں کی گئیں ان میں بڑا اہم کردار علماءدیوبند کا ہے ، بالخصوص حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اور امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی خدمات اور مساعی اس سلسلہ میں امت مسلمہ کے ایمان کے تحفظ و بقاءکا سبب ہیں ۔
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی منظوری مکہ مکرمہ میں حضرت مولانا خواجہ خان¾ نے دی۔ پھر 10اکتوبر 1985ءکو کندیاں شریف میں ایک اجلاس بلا کر دعاﺅں کے ساتھ اس فیصلہ کی توثیق فرمائی ۔ آج یہ جماعت ملک بھر کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک مےں عقےدہ ختم نبوت کے حوالہ سے شب وروز خدمت میں مصروف ہے اور جہاں بھی ےہ فتنہ سراٹھاتا ہے تو جماعت کے ذمہ داروہاں پہنچ کر سازش کو ناکا م بنانے مےں تن من دھن کی بازی لگانے سے بھی گرےز نہےں کرتے ۔