ہماری منزل”عظیم تر پاکستان“
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام 27 فروری2013ءکو صبح دس بجے ”پانچویں سالانہ سہ روزہ کانفرنس کا افتتاح ہوا۔ افتتاحی تقریب ایوان کارکنان پاکستان کی پرشکوہ عمارت میں منعقد ہوئی۔ چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ محترم مجید نظامی نے پرچم کشائی کر کے تقریب کا آغاز کیا۔ اس دوران عمارت کے سبزہ زار میں خوش پوش فوجی بینڈ نے ملی نغمے اپنے دلکش اور سریلے سازوں پر چھیڑ رکھے تھے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ہدیہ نعت پیش کرنے کا اعزاز راقم کو حاصل ہوا۔ نعت کے بعد قومی ترانہ سنایا گیا۔ اس کے بعد سکول کے بچوں نے مل کر کلام اقبال، اپنی مترنم آوازوں میں سنایا۔ ”خودی کا سرنہاں، لا الہ الا اللہ “۔۔۔کلام اقبال کے بعد حضرت قائداعظمؒ کی گرجدار اور باوقار آواز ہال میں گونجی ۔آپ کی تاریخی اور جذباتی تقریر کے دوران حاضرین کی آنکھوں کی شمعیں سی روشن ہو گئیں۔ نقابت کے فرائض جناب شاہد رشید نے ادا کئے۔ اس کانفرنس کا موضوع ہے، ہماری منزل عظیم تر پاکستان۔میں حضرت قائداعظمؒ کی آواز سن کر اپنی آنکھوں میں جھلملاتے ستارے اور عظیم تر پاکستان کے خواب سمیٹ کر اٹھا اور ہال سے باہر آ گیا.... پاکستان کو قیام پذیر ہوئے چھیاسٹھ برس ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 33 سال فوجی آمریت کے زیر تسلط گذر گئے اور بقیہ مدت میں جو جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمیں ایسی قیادت ملی ہی نہیں جو ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیتی۔ جوبھی آیا اس نے اس غریب ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور ملک روز بروز غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ کسی پارٹی یا رہنما نے ایسا منشور دیا ہی نہیں جس پر عمل کر کے ہم ترقی کر پاتے۔ خوش حال ہو جاتے۔ ہر پارٹی کا الگ منشور، الگ راستہ ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیا خاک ترقی کریں گے۔ امریکہ اور یورپ کی تقلید ان کے قومی مفادات، مسلسل جمہوری نظام اور پالیسیوں اور منشور کی باقاعدگی کے حوالے سے کی ہوتی تو آج ہم بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہوتے۔ قانون اور عدل سب پر یکساں لاگو ہوتے۔ تعلیم ہر طبقے کے بچوں کےلئے عام ہوتی، صحت اور روز گار کی سہولت ہر ایک کو میسر ہوتی اور امن و امان کا قیام سب سے بڑی ترجیح ہوتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ہم بھی دنیا کی سربلند قوموں میں سرفہرست ہوتے۔ سیاسی نعروں کی حد تک تو ہر پارٹی ایسے ایسے خواب دکھاتی ہے بلکہ سبز باغ دکھاتی ہے کہ بندہ خوشی سے دھمال ڈالنے لگتا ہے کہ .... آوے ای آوے.... ہے جما لولیکن جب عوام کے قیمتی ووٹوں سے حکمرانی کا حق حلال ہوجاتا ہے تو ہر پارٹی ایک جیسی ہو جاتی ہے؛ بے حس، خود غرض اور وعدہ خلاف....حکمرانوں نے اپنے پانچ سال دور حکومت میں پاکستان کو بدامنی، دھماکوں، بے گناہوں کی لاشوں، مہنگائی، بیروزگاری، بجلی ،گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ اور سیاسی بے چینی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ آئندہ الیکشن میں کوئی بھی جماعت حکومت بنائے، یہاں ایک ایسا منشور یا تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر عمل کر کے ہم پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ -1 آئین میں یہ شق شامل کرنا کہ کوئی بھی ایسا پراجیکٹ جس کی تکمیل قومی ترقی اور عوامی خوشحالی کا باعث ہو کی تعمیر کسی بھی پارٹی کا حکمران، چاہے وہ صدر ہو، وزیراعظم ہو یا آرمی چیف ہو، روک نہیں سکتا۔ دوسرے یہ کہ خارجہ پالیسی میں ردوبدل کےلئے قومی اسمبلی، پارلیمنٹ اور قائدحزب اختلاف سے مشور کرنا لازم ہو گا۔ -2 پاکستان سے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ، تمام زرعی زمینیں حکومت پاکستان کی ملکیت ہوں گی جو ساڑھے بارہ ایکڑ کے حساب سے اس شخص کو اس شرط پر دی جائے گی کہ وہ اس پر کاشت کاری کرے گا۔ جو کسان دو سال تک اس اراضی پر فصل نہیں اگائے گا اس سے زمین واپس لے لی جائے گی۔ اس اقدام کی بدولت سبز انقلاب آ سکتا ہے۔ -3 تعلیم پر بجٹ کا (کم از کم) چالیس فیصد حصہ خرچ کیا جائے گا اور بلاامتیاز ہر پاکستان بچے کو میٹرک تک مفت تعلیم دینا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہو گی۔-4 مسلسل جمہوری عمل کے نتیجے میں یہ کوشش کی جائے گی کہ پاکستان میں بھی ”دو جماعتی نظام“ (ٹو پارٹی سسٹم) کو رائج کیا جا سکے۔-5 کرپشن کے تدارک کےلئے غیر ملکی اور ملکی سطح پر ہونے والے ہر منصوبے معاہدے اور ڈیل میں اعلیٰ عدالت کے دو جج صاحبان بطور گواہ شامل کئے جائیں گے۔درجہ بالا پانچ نکاتی منشور (تجاویز) پر عمل کر کے پاکستان کو صرف بیس سال کی قلیل مدت میں ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ آسان کام نہیں، لیکن جب تک ہم یہ مشکل مراحل طے نہیں کریں گے۔ ہماری مشکلات میں اضافہ ہو تا رہے گا۔ یعنی بقول غالب ....ع مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں