”دو باصلاحیت پاکستانی کھلاڑی “باڈی بلڈنگ کے انٹرنیشنل مقابلوں میں شریک ہوں گے
حافظ محمد عمران
پاکستان ہر لحاظ سے ایک انتہائی زرخیز خطہ ہے۔ یہاں قدرت کی تمام نعمتیں بہتات سے پائی جاتی ہیں۔ یہاں سردی، گرمی، خزاں، بہار غرضیکہ ہر موسم پایا جاتا ہے، تمام پھل ہیں جو کہ انتہائی خوش ذائقہ اور لذت سے بھرپور ہیں، یہاں کی اجناس، چاول، دالیں، مصالحہ جات دنیا بھر کی مصنوعات کے مقابلے میں بہترین ہیں۔ یہاں طلبا و طالبات سے لے کر ماہر اساتذہ تک اور چھوٹے چھوٹے مکینکوں سے لے کر بڑے بڑے نامی گرامی انجینئروں اور سائنس دانوں تک ہر طبقہ موجود ہے۔ مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان قدرت کا ایک ایسا انمول شاہکار ہے جس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی۔
سکواش میں ہمارے کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا اور ایسے ایسے ریکارڈ قائم کیے جن پر ہمیں فخر ہے۔ ہاکی میں ایک وقت ایسا تھا جب ہاکی کے تمام ٹائٹل پاکستان کے نام تھے۔ کرکٹ میں پاکستان ورلڈ کپ اور ورلڈ ٹی ٹونٹی چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔ ہماری بلائنڈ ٹیم بھی ورلڈ کپ جیت چکی ہے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات اور مختلف شعبوں کے کھلاڑیوں نے لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں قومی ترانے وغیرہ کے ریکارڈ بھی درج کروائے ہیں پنجاب یوتھ سپورٹس فیسٹیول میں پنجاب کا جتنا ٹیلنٹ اُبھر کر سامنے آیا ہے اُسے اگر مناسب ٹریننگ دی جائے تو بہت سے کھیلوں کے لیے اچھے کھلاڑی سامنے آ سکتے ہیں۔
ٹیم ایونٹ کے علاوہ بہت سے کھیل ایسے ہیں جن میں انفرادی طور پر کھلاڑیوں نے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جس کی مثال ویٹ لفٹنگ، باڈی بلڈنگ، سنوکر وغیرہ ہیں جن میں اپنی انتھک جدوجہد اور شبانہ روز محنت کی بدولت اپنی مدد آپ کے تحت (یعنی بغیر کسی حکومت مدد کے) ملک کا نام روشن کیا۔ اس کی تازہ ترین مثال محمد آصف کا ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ جیتنا ہے۔ یہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ کھلاڑی عزم و استقلال کی درخشندہ مثال ہے۔
پاکستان میں پوشیدہ جوہر کی کمی نہیں مسئلہ اُن کی تراش خراش کر کے اُنہیں ہیروں کی شکل دینا ہے۔ کچھ کھیل ایسے ہیں جن میں کھلاڑیوں کو مالی سرپرستی کی ضرورت رہتی ہے اور وہ اپنے تئیں کچھ بننے سے قاصر رہتے ہیں نتیجتاً بہت سے پھول بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔ باڈی بلڈنگ خوراک کے لحاظ سے ایک بہت مہنگا کھیل ہے کیونکہ کھلاڑیوں کو روزانہ کسرت کے ساتھ ساتھ عمدہ خوراک کی بھی ضرورت رہتی ہے لیکن ہوش رُبا مہنگائی کی وجہ سے بہت سے ٹیلنٹ رکھنے والے کھلاڑی اس کھیل کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کھیل میں یحییٰ بٹ اور معصوم بٹ نے پاکستان کا نام روشن کر کے نئے آنے والوں کے لیے مثال قائم کی۔ ایشیا کی سطح پر بھی ہمارے باڈی بلڈرز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے لیکن حکومتی سطح پر مناسب انداز میں اس کھیل کی سرپرستی نہیں کی گئی، پھر بھی نوجوانوں کا شوق کم نہیں ہوا اور آج بھی عزم و ہمت اور استقلال کی مثال لاہور سے تعلق رکھنے والے ایسے باڈی بلڈر بھی ہیں جو اگرچہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت ملک کا نام روشن کرنے کی جستجو میں شبانہ روز کوششوں میں مصروف ہیں۔ لاہور میں حال ہی میں منعقدہ آل پاکستان باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ میں ایک ہی کلب کے دو نوجوانوں نے مسٹر پاکستان کا پہلا اور دوسرا انعام جیتا ہے۔ یہ دونوں کھلاڑی سابق مسٹر پاکستان علاﺅالدین بھٹی سے ٹریننگ لے رہے ہیں۔ اِن دونوں کھلاڑیوں کو (ورلڈ فٹنس فیڈریشن اور ورلڈ باڈی بلڈنگ فیڈریشن) WFF-WBBF انٹرنیشنل کی جانب سے رواں سال منعقد ہونے والے انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ یہ کھلاڑی روس کے شہر ماسکو میں مئی 2013ءمیں ہونے والے مقابلوں میں شرکت کے خواہشمند ہیں تاکہ وطنِ عزیز کے لیے کوئی اعزاز جیت کر ملک کا نام روشن کر سکیں۔
کامران بشیر مسٹر پاکستان اور ڈاکٹر راشد علی رنر اپ نے حکومت پنجاب خصوصاً غریب دوست وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ ہماری سرپرستی کی جائے تاکہ ہم دیارِ غیر میں پاکستان کا پرچم بلند رکھنے کے لیے زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ ٹریننگ کر سکیں۔
پاکستان کی عزت و وقار میں اضافہ کرنے کا جذبہ رکھنے والے یہ نوجوان پرامید ہیں کہ اگر سرکاری تنظیموں نے اُن کے سروں پر دستِ شفقت نہ رکھا تو وہ اپنے وسائل سے (چاہے اُنہیں کچھ بھی کرنا پڑے) ملک کا نام روشن کرنے کی اپنی کوشش ضرور کریں گے۔ اس ضمن میں اُنہیں پورا یقین ہے کہ دیارِ غیر میں مقیم صاحب ثروت پاکستانی اپنے ملک کا نام روشن کرنے کے لیے ضرور اُن کی سرپرستی فرمائیں گے تاکہ خوابوں کو عملی شکل دی جا سکے۔ اس سلسلے میں کون آگے بڑھ کر اپنا فرض نبھاتا ہے؟
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات