• news

نئے صوبوں کا کیس : پارلیمنٹ پورا ملک بھارت کے حوالے نہیں کر سکتی‘ آئینی حدود میں رہ کر کام کرے : لاہور ہائیکورٹ


لاہور(وقائع نگار خصوصی)لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون بنانے کا اختیار ہے مگر اسے اپنی آئینی حد میں رہ کر اس اختیار کو استعمال کرنا چاہیے۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ پارلیمنٹ پورا ملک بھارت کے حوالے کردے۔مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے یہ ریمارکس نئے صوبوں کی تشکیل کےلئے بنائے گئے کمشن کی آئینی حثیت کو چیلنج کئے جانے اور ضلع میانوالی کو عوامی خواہشات کے برعکس ممکنہ صوبے میں شامل کرنے کے خلاف دائر رٹ درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔ فاضل عدالت نے نئے صوبوں کے کمشن کے قیام سے متعلق منظور کی گئی قومی اسمبلی کی قرارداد کا متن طلب کرتے ہوئے مزید سماعت5مارچ تک ملتوی کر دی۔درخواست گذارمحمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ اور دیگر نے عدالت میں بحث کرتے ہوئے بتایا کہ نئے صوبوں کے قیام کے متعلق سپیکر قومی اسمبلی کو کمشن بنانے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔قومی اسمبلی رولز 2007 کے مطابق پارلیمانی کمیٹیاں و سٹینڈنگ کمیٹیاں بنانے کا اختیار تو ہے مگر کمشن بنانے کا اختیار نیشنل اسمبلی رولز میں نہیں دیا گیا۔ بیس سے زیادہ پاکستانی قوانین کے تحت کمشن بنے مگر اِس طرح کا کمشن بنانے کا اختیار کسی آئین یا قانون نے نہیں دیا ۔ کمشن بنانے کا اختیار انکوائری ایکٹ1956کے تحت وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ صدر پاکستان کے پیغام کے بعد قومی اسمبلی نے آئین ِ پاکستان اورقومی اسمبلی رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرار داد منظور کی۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عبدالحئی گیلانی نے کہا کہ صدر کے پیغام کے بعد نیشنل اسمبلی نے قرار داد منظور کی ہے اور اُس قرار داد کی روشنی میں یہ کمشن تشکیل دیا گیا ہے ۔ پارلیمنٹ جو چاہے وہ کر سکتی ہے۔ درخواست گذار نے اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کہے کہ نہر کا پانی بند کر دیا جائےگا تو وہ یہ نہیں کرسکتی حتیٰ کہ اگر کوئی قانون بھی بنا دیا جائے تو بھی یہ نہیں ہو سکتا۔ پارلیمنٹ بنیادی حقوق کےخلاف اور آئین کے بنیادی ڈھانچہ کےخلاف کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی۔ جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کر سکتی مولوی تمیز الدین کیس میں یہ اُصول طے ہو چکا ہے۔درخواست گزارنے مزید دلائل میں کہا کہ آج سے بیس سال قبل انگلینڈ میں ایسا ہو جاتا تھا کہ وہ عورت کو مرد اور مرد کو عورت قرار دے سکتے تھے مگر وہاں بھی اب یہ ممکن نہیں رہا۔ آئین کا آرٹیکل 2 اے اور 227 اور بنیادی حقوق سے متعلق آرٹیکلز اِس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تو بل سینٹ میں پیش کیا گیا ہے جب وہ قانون بن جائیگا یا آئین میں ترمیم ہو گی تو یہ چیلنج کر سکتے ہیں۔اس پر محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ حسبہ بل کیس میں عدالت یہ اُصول متعین کر چکی ہے کہ ایسا بل جو بنیادی حقوق یا بنیادی ڈھانچہ سے متصادم ہو اس میں عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔ آئین پاکستان 1973 کے تحت نیا صوبہ بنانے کی گنجائش نہیں ہے۔ نئی آئین ساز اسمبلی بنے گی و ہ نیا صوبہ بنا سکتی ہے ۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو قومی اسمبلی کی قرارداد ریکارڈ میں لگانے کا حکم دیا جس پر درخواست گذارنے اعتراض اُٹھایا کہ یہ قرار داد نہ تو نیشنل اسمبلی کی ویب سائٹ پر ہے اور نہ ہی کمشن کی رپورٹ کا حصہ ہے یہ قرار داد بعد میں تیار کی گئی ہے اور قرار داد کی کوئی قانونی حیثیت نہیںہے۔ پارلیمنٹ اِس سے قبل ڈرون حملوں اور عافیہ صدیقی کی واپسی کے بارے میں قرار دادیں پاس کر چکی ہے اِن قرار دادوں کی بھی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ اِس لیے نیشنل اسمبلی کی قرار داد اگر منظور بھی ہوئی ہے تو کمشن بنانے کا اختیار پھر بھیقومی اسمبلی کے پاس نہیں ہے۔ صرف دو قرار دادیں صوبائی اسمبلی پنجاب کی ریکارڈ پر ہیں اور 11 جولائی کو صدر کا پیغام جو کہ ایک حکم کی شکل میں دیا گیا تھا اُس کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیںہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کیس کو دو ہفتے کے لیے ملتوی کرنے کے لیے کہا جس پر اعتراض اُٹھایا گیا کہ جان بوجھ کر اِس اہم و آئینی کیس کو لٹکایا جا رہا ہے۔درخواست گذار نے عدالت سے استدعا کی کہ نئے صوبوں کے قیام سے متعلق کمشن کی رپورٹ اور آئینی بل پر حکم امتناعی جاری کر دیا جائے اور کیس کی سماعت چاہے جتنی دیر کے لیے ملتوی کر دی جائے ۔مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیئے کہ اگر زیادہ دن چاہئیں تو عدالت حکم امتناعی جاری کر دیتی ہے اِس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس کو منگل کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 5 مارچ تک ملتوی کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ

ای پیپر-دی نیشن