• news

جرگہ، طالبان مذاکرات کا روڈ میپ کیا ہو گا، فوج حمایت کرے گی؟


کوئٹہ (بی بی سی اردو ڈاٹ کام / نیٹ نیوز) عوامی نیشنل پارٹی کی ک±ل جماعتی کانفرنس کے برخلاف کالعدم تحریک طالبان نے جے یو آئی کی اے پی سی کے اعلامیہ کو مثبت قرار دیا ہے، مگر طالبان کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستانی فوج طاقت کا سرچشمہ ہے اور ان کے بغیر مذاکرات بے معنی ہونگے۔ طالبان کے اس بیان کے بعد یہ بات مختلف حلقوں کی جانب سے کی جا رہی ہے کہ طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کے لیے روڈ میپ کیا ہے، کیا ہو سکتا ہے اور ان مذاکرات کا آغاز کہاں سے ہوگا؟ یہ جرگہ کتنا با اختیار ہے اور کیا افوج پاکستان مذاکرات کی حمایت کریں گی؟ اس قبائلی جرگے کے ایک رکن صادق شیرانی نے جرگے کا پس منظر اور اس کے بااختیار ہونے کے بارے میں بتایا گذشتہ سال جولائی سے اس جرگے پر کام ہو رہا ہے۔ ابتدائی طور پر 1200 سے زائد نمائندوں کو اس میں شریک کیا گیا تھا۔ پھر ان 1200 افراد میں سے 78 مشران کا انتخاب کیا گیا جو ایک مضبوط قبائلی پس منظر اور حمایت رکھتے ہیں۔ صادق شیرانی کے مطابق اس جرگے میں عمائدین، علما اور سرکردہ افراد شامل ہیں جن کے فوج، طالبان اور حکومت سے اچھے رابطے ہیں۔ جرگے کے ایک اور رکن سینیٹر مولانا صالح شاہ نے کہا طالبان کی جانب سے تین سیاسی رہنماو¿ں کی ضمانت کا مطلب یہ ہے کہ مذاکرات ان کی نگرانی اور اعتماد سے شروع کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج ان مذاکرات میں رکاٹ نہیں بنے گی۔ صالح شاہ کے مطابق حکومت اور فوج سے جو بھی بات ہوگی وہ گورنر خیبر پی کے کے ذریعے سے ہوگی۔ خود ان کا تعلق بھی قبائلی علاقے باجوڑ سے ہے اس لیے وہ تمام معاملات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا قبائلی علاقوں میں بہت سے طالبان گروپ کام کر رہے ہیں، تو کس کس سے بات چیت ہوگی؟ سینیٹر صالح شاہ کا کہنا تھا اس میں شک نہیں وہاں پر مختلف گروہ ہیں لیکن ان تمام گروہوں کی اپنی ایک مشترکہ شوریٰ بھی ہے جن سے قبائلی عمائدین واقف ہیں۔ طالبان کی شوریٰ کی جانب سے جن لوگوں کے نام دیے جائیں گے ان سے ہی مذاکرات کیے جائیں گے اور وہی لوگ ان کے نمائندے تصور کیے جائیں گے۔ سینیٹر صالح کا کہنا تھا طالبان کا بھی اس منتخب جرگے پر مکمل اعتماد ہے۔ اس سوال پر کہ طالبان سے بات چیت کا آغاز کیسے ہوگا، انہوں نے کہا کہاں سے اور کیسے اس کام کا آغاز کیا جائے گا یہ باتیں میڈیا سے شیئر نہیں کی جائیں گی۔ جرگہ کتنا موثر ثابت ہوسکتا ہے، اس پر سیاسی تجزیہ کار جان محمد اچکزئی کا کہنا ہے اس جرگے کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا گیا تو اس کے انتہائی مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔ ان کے مطابق قبائلی جرگے کے پلیٹ فارم پر ہی دراصل اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جرگہ انتہائی بااثر قبائلی عمائدین پر مشتمل ہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ عمائدین ایک ایسا درمیانی راستہ نکال لیں جو فریقین کے لیے قابل قبول ہوگا۔
روڈ میپ

ای پیپر-دی نیشن