• news

’اب نوحؑ کہاں جو ہمیں کشتی پہ بٹھا لے‘

اسی ماہ ہماری قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہو رہی ہے اور اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کی بھی۔ بیٹھے بٹھائے حکمرانوں نے یکدم بھاگنا شروع کر دیا ہے۔ استاد قمر جلالوی نے اپنی عمر عزیز کے آخری دنوں میں کچھ اور طرح کے ارادے ظاہر کئے تھے ’اب نزع کا عالم ہے مجھ پر‘ تم اپنی محبت واپس لو‘ لیکن پاکستان کے حکمران کچھ اور طرح کے عزائم رکھتے ہیں۔ یہ ان دنوں جیسے ہڑبڑا کر خواب غفلت سے اٹھ بیٹھے ہیں۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ان کی کارکردگی ‘ مستعدی اور چابکدستی بڑھتی جا رہی ہے۔ گہری نیند سے اچانک جاگے ہوئے احمد مختار کہہ رہے ہیں کہ گنے کے پھوک سے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ انہیں یہ انکشاف ابھی ابھی ہوا ہے یا وہ یہ راز دیر سے اپنے سینے میں چھپائے بیٹھے رہے ہیں‘ ہم نہیں جانتے۔ اک بات انہوں نے اور بتائی ہے۔ سچی بات ہے ہمیں تو یہ سن کر ہسنتے ہسنتے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ فرما رہے ہیں ”مجھے پانی اور بجلی کی وزارت اس لئے دی گئی ہے کہ آصف زرداری جانتا ہے کہ احمد مختار بددیانتی نہیں کر سکتا“ ۔ اب کیا یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انہیں یہ وزارت راجہ رینٹل کی ”ایمانداری“ کے باعث ان کی وزارت عظمیٰ پر ترقی کے باعث ملی ہے۔ فیض احمد فیض بےچارے محض یہ مصرع کہنے کے ہی روادار ہوئے تھے۔ ”پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید“ پھر اپنی اس دریا دلی کی وجہ انہوں نے دوسرے مصرعے میں مہنگائی ہی قرار دی تھی۔ ’گراں ہے اب کہ مئے لالہ فام کہتے ہیں‘۔ ادھر لاہور میں میاں شہباز شریف نے سچ مچ مفت بس سروس چلا دی ہے۔ ہم نے مفت بس سروس چلتے دیکھی تو صاف سمجھ آ گئی کہ الیکشن آنے والے ہیں۔ سنا ہے چلو¶ں سے پانی پینے والے جاٹ کے ہاتھوں کہیں سے اک کٹورا آ گیا تھا‘ اب وہ بے چارہ پانی پی پی کر اپھارہ سے شاید مرا تو نہیں تھا بس اپھارہ تک ہی راوی بیان کرتا ہے۔ ادھر لہوریے بھی مفت بس سروس کے دنوں کے میں جان و مال سے محفوظ ہی رہے۔ کسی مسافر کے کچلے جانے کی یا کسی جیب کترے کی کارستانی سننے میں نہیں آئی۔ شاید مفت بس سروس کے باعث یار لوگ خالی جیب ہی گھر سے باہر نکلتے رہے ہیں۔ پہلا اعلان ایک ماہ تک مفت بس سروس کا تھا۔ پھر پہلا حکم موقوف کرنے کا اور پندرہ روز مفت بری کا شورشرابہ سننے میں آتا رہا۔ چند ہی روز میں بڑی بے لحاظی برتتے ہوئے بیس روپے ٹکٹ کا محض اعلان ہی نہیں بلکہ نفاذ بھی کردیا گیا۔ پھر ایک روز خادم اعلیٰ پنجاب خود بھی چپکے سے میٹرو بس سٹاپ پہنچ گئے کہ ہم خود ٹکٹ خرید کر سفر کر رہے ہیں۔ ایک اخباری فوٹو گرافر بھی ان کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ جب میاں شہباز شریف قطار میں کھڑے تھے تو اس نے جھٹ سے تصویر بنا لی۔ اب یہ تصویر اس نے اپنے پرس میں رکھنے کے لئے تھوڑی کھینچی تھی۔ اگلے ہی روز ہمیں یہ تصویر اخبار میںدیکھنے کو مل گئی۔ ہم نے یہ تصویر دیکھی تو ہمیں یاد آ گیاکہ ہمارے بچپن میں ایسی ہی قطاریں سینما ہالوں کے باہر دیکھنے میں آتی تھیں۔ ان قطاروں میں لڑائی مار کٹائی‘ دھکم پیل اور شورشرابہ سب کچھ ہوتا۔ کبھی کبھی تو سلور پیتل کے حورے اور چقو بھی چل جاتے۔ شریف شرفاءقطار میں ٹکٹ خریدنے کی بجائے ٹکٹ ذرا مہنگی بلیک مارکیٹ میں خرید لیتے۔ اب نہ ہی سینما¶ں میں رونق بھیڑ ہے‘ نہ ہی وہاں قطاریں شطاریں ہیں اور نہ ہی ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ اسی لئے تو بے چارے آصف علی زرداری کو ایوان صدرمیں جاب ڈھونڈنا پڑا ہے۔ واہ ! ہمیں کیا پتہ تھا کہ سینما¶ں کی بربادی میں ہمارے ایوان صدر کی بربادی بھی چھپی ہوئی ہے۔ ہماری قسمت ہی کچھ ایسی ہے کہ ہمارے ہاں مصیبت اکیلی نہیں آتی۔ ایک مصیبت کے پیچھے دوسری مصیبت آ کھڑی ہوتی ہے۔ اب تو بلاول زرداری نے بھی ڈھیلے ڈھالے کرتہ شلوار کا کثرت سے استعمال شروع کر دی ہے۔ ایوان صدر کی طرف سفر کے دوران آصف زرداری کی بھی یہی پوشاک ہوا کرتی تھی۔ ہمارا جی ڈر رہا ہے ۔ اب ہمارا کیا بنے گا جی؟....
میرا سینہ دم کروا¶
اندروں ڈر نئیں جاندا
خیر سی این جی سٹیشنوں پر چھوٹی بڑی کاروں کی لمبی قطاروں کی بھیڑ میں میٹرو بس سروس کو ایک نعمت نہ لکھنا کفران نعمت کے برابر ہے۔ ہمارا کیا ہے ‘ ہم تو اس زمانہ کے آدمی ہیں۔ جب گوجرانوالہ سے لاہور تک کرایہ 1 روپے 6 آنے ہوا کرتا تھا اب نہ ہی آنے رہے اور نہ ہی وہ موج بہاریں۔ پھر بھی بیس روپے ٹکٹ بھی آج کے زمانے میں موج بہار ہی سمجھئے۔ مجھے میاں شہباز شریف کی یہ ادا اچھی لگی کہ اپنے دوست بھائیوں کو بھی موجیں کروانی چاہئیں۔ ترکی والے ہمارے دوست بھی ہیں اور بھائی ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی یہ پتہ چلنے پر کہ ترکی البراک کمپنی کو ان کی پینتالیس بسوں کا کرایہ بہرحال روزانہ تیس لاکھ چورانوے ہزار دو سو روپے مل جایا کرے گا۔ کسی ناگہانی صورتحال میں سیلاب زلزلہ وغیرہ یا پھر ہڑتال کی صورت میں جو کہ ہماری قومی عادت بن گئی ہے‘ ہمارے ترکی بھائیوں کو بہر صورت 68760/- روپے فی بس ہر روز مل جایا کریں گے۔ دوست وہی جو مشکل وقت میں اپنے دوست کی مدد کرے اور اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کرے۔ پیپلز پارٹی بھی اس میدان میں پیچھے نہیں۔انہوں نے بھی جھٹ شاہدرہ اور کوٹ لکھپت کے درمیان چار شٹل ٹرینیں چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ریلوے افسران اس فیصلے پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔پانچ شٹل ٹرینیں چلانے میں ریلوے کو ہر ماہ نوے لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمارے دلیر حکمران ایسے نقصان کو بھلا کہاں خاطر میں لاتے ہیں۔ اب آئیں ہم تیسری سمت چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں ادھر کیا ہو رہا ہے۔ وہاں انٹرا پارٹی الیکشن کا شور شرابہ ہے۔ ہم تو پیپلز پارٹی کا دستور اور منشور لکھنے والے جے ۔ اے رحیم کی طرح ہی پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی بجائے نامزدگی سے چلانے کے حامی ہیں۔ جمہوریت کی لمبی تاریخ میں برطانیہ میں عورتوں کو ووٹ کا حق پہلی مرتبہ 1933ءمیں ملا تھا۔ ابھی پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کےلئے قدرے انتظار ہی بہتر ہے۔ جماعتی انتخاب کے فائدے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنوائے جا سکتے ہیں۔ نقصانات گنوانے کے لئے دونوں ہاتھوں اور پا¶ں کی انگلیاں بھی کم پڑیں گی۔ ڈگری ڈگری ہی ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی‘ یہ بات اک بونگی ہی سہی ۔ لیکن الیکشن الیکشن ہی ہوتا ہے‘ جماعتی ہو یا ملکی ۔ دھونس‘ غلط ہتھکنڈے‘ جعلی ووٹ‘ دھن دولت کا استعمال‘ ان سب عوامل سے بچنا ناممکن۔ آلودگی سے مکمل پاک فضا اور پانی کے بغیر دودھ خام خیالی۔
جماعتی الیکشن سے جو نقصان ہونا تھا سو ہو چکا۔ اب تحریک انصاف کے جیتے ہارے کارکن آگے بڑھیں اور دیکھیں الیکشن میں خلق خدا کیا فیصلہ کرتی ہے۔ بہرحال مرتضیٰ برلاس کے اس شعر کے ساتھ کالم کو بس ختم ہی سمجھئے....
اب نوح کہاں جو ہمیں کشتی پہ بٹھا لے
ورنہ کسی طوفان کے آثار تو سب ہیں

ای پیپر-دی نیشن