ایک بار بتا دیں توقیر صادق کو گرفتار کرنا ہے یا نہیں : سپریم کورٹ ....چیئرمین نیب سے رپورٹ طلب
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق کی واپسی کے حوالے سے نیب کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 7 مارچ کو دوبارہ رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ ہنڈی کے ذریعے ملزم کو پیسے بھجوانے کے معاملے پر تحقیقات مکمل کر کے چیئرمین نیب سے دس دنوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ رپورٹ سے تاثر ملتا ہے کہ ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے اور تاریخ لینے کی کوشش اب بھی جاری ہے، توقیر صادق اب تک پاکستان کیوں نہیں پہنچے۔ تیاری کیلئے ایک یا دو دن کا وقت دے سکتے ہیں۔ مجرموں کو رعایتیں اورمراعات کیوں دی جا رہی ہیں۔ نیب واضح طور پر بتائے انہوں نے توقیر کو گرفتار کرنا ہے یا نہیں۔ مجرموں کی گرفتاری میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو نیب کی طرف سے رانا زاہد نے بتایا کہ توقیر صادق کو دبئی میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اسے ڈی پورٹ کرنے اور دبئی بدر کرنے کی درخواستیں منظور ہو چکی ہیں۔ نیب چاہتی ہے کہ اسے جلد از جلد پاکستان لایا جائے۔ عدالت کے عبوری حکم پر نظر ثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ نظر ثانی کی درخواست کی سماعت موخر کی جائے کیونکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے آغا لندن میں ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ درخواست آپ نے دائرکی ہے آپ ہی دلائل دیں ہم آپ کو کچھ وقت دے سکتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا توقیر صادق کو 27 فروری کو واپس لانا تھا لیکن دبئی عدالت نے دس روز کی توسیع کر دی ہے جس کی وجہ سے ہم بھی مجبور ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ نے وضاحت کا نوٹس جاری کر دیا ہے کہ ملزموں کو رعایتیں اور مراعات کیوں دی جا رہی ہیں۔ عدالت نے کہا نیب کے دبئی تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ توقیر صادق کو ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجے جاتے ہیں جو اس کی بیوی بھیجتی ہے حالانکہ پاکستان میں ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجنے پر پابندی ہے۔ ایسا کےسے ہو سکتا ہے۔ جبکہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل مظہر چوہدری کو عدالت نے کہا ہے کہ وہ 7 مارچ کو نظر ثانی کی درخواست میں دلائل کیلئے تیار ہوکر آئیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ابھی تک توقیر صادق کیس میں عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے عدالت کے حکم پر عمل کے بجائے مختلف توجیہات پیش کی جارہی ہیں کہ عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاسکا۔ سپریم کورٹ میں توقیر صادق کے حوالے سے تفتیشی افسر کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور چیئرمین نیب سے اس بارے میں وضاحت طلب کی کہ تفتیش کی رپورٹ کو عدالت سے کیوں چھپا کررکھا گیا۔گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر وقاص نے عدالت کو بتایا کہ توقیر صادق کی اہلیہ صائقہ توقیر کو پاکستان سے مسلسل حوالہ کے ذریعے رقم مل رہی ہے،حوالہ کے اس کاروبار میں ملک کا ایک بڑا ٹیکسٹائل گروپ ملوث ہے اور توقیر صادق اس کاروبار میں حصہ دار ہیں۔ تفتیشی افسر نے بتایا اس بارے میں تفصیلی رپورٹ جس میں موبائل فون کے پیغامات اور دیگر مواد شامل ہے نیب ہیڈ کوارٹر کو 22فروری کو بھیجی تھی اس موقع پر بنچ کی جانب سے حیرانی کا اظہار کیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا 26فروری کو سماعت کے موقع پربھی ہمیں اس رپورٹ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور آج بھی ہمیں اس پہلو سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر کی رپورٹ پراسیکیوٹر جنرل کے پاس تھی مجھے اس بارے میں معلومات نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ نیب کرپشن کو بے نقاب کرنے کا ایک قانونی ادارہ ہے لیکن یہ بات سامنے آ رہی ہے اس بارے میں عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کے علاوہ وہ لوگ جو کرپشن میں ملوث ہیں کے خلاف کارروائی سے جان بوجھ کر گریز کیا جا رہا ہے۔ نیب کا یہ رویہ اس کے ریکارڈ سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 7مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی چیئرمین نیب اس حوالے سے وضاحت کریں۔ سید عامر حسین نقوی نے عدالت کو بتایا ان پر گواہی سے انحراف کیلئے دباﺅ ڈالا گیا، توقیر صادق کے فرنٹ مین شہزاد سلیم بھٹی کی وجہ سے ان کو پانچ کروڑ کا نقصان ہوا، انہوں نے 9غیر قانونی سی این جی اسٹیشن کی نشاندہی کی اور ڈی جی نیب راولپنڈی کو درخواست دی مگر ایک دن بعد توقیر صادق کے فرنٹ مین کا بھائی آیا اور کہا ڈی جی نیب کہتے ہیں آپ مک مکا کرلیں ، درخواستوں اور گواہی کے چکر سے نکلیں۔ ثناءنیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے اوگرا عملدرآمد کیس میں توقیر صادق کی عدم گرفتاری پر چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا بتایا جائے کیوں توقیر کی گرفتاری سے متعلق عدالتی فیصلہ پرعملدرآمد نہیں ہوا چیئرمین نیب بتائیںکیس کی رپورٹ ابھی تک عدالت میں کیوں جمع نہیں کرائی گئی۔ ملزمان کی گرفتاری کے معاملہ میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا غیر معمولی اور ممکنہ طورپر مجرمانہ طرز عمل کیوں اپنایا گیا۔ نیب کی کارکردگی کی ذمہ داری چیئرمین نیب پر عائد ہوتی ہے جبکہ ڈپٹی چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر نیب بھی ذمہ دار ہیں عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر سے کیس کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ عدالت نے چیئرمین نیب کو جواب دینے کیلئے 10 روز کی مہلت دی۔ دوران سماعت جسٹس جواد خواجہ نے نیب کی رپور ٹ مسترد کرتے ہوئے کہا رپورٹ ظاہر کرتی ہے معاملے کو لٹکایا جا رہا ہے نیب رپورٹ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک بار بتادیں توقیر کو گرفتار کرنا ہے یا نہیں تاکہ روز روز کی جھنجٹ سے جان چھوٹ جائے۔
سپریم کورٹ/ توقیر صادق