• news

کُچھ جنرل( ر) مشرف کی حمایت میں!


مَیں عملی سیاست میں حِصّہ نہیں لیتا ، ورنہ سابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کی آمد کا اعلان سُن اور پڑھ کر اپنے ۔” لاکھوں ساتھیوں سمیت“۔ اُن کی، آل پاکستان مسلم لیگ میں ،شمولیت کا اعلان کر کے ،عام انتخابات سے پہلے ہی ،میدان میں کود پڑتا،لیکن کیا کروں کہ ۔” میرے لاکھوں ساتھیوں “۔ میں سے کوئی بھی ،عملی سیاست میں حِصّہ لینے کی، استطاعت نہیں رکھتا تو کیوں نہ، مَیں اپنے ۔” سابق محبوب صدر “۔ کی حمایت میں ایک کالم لِکھ کر انہیں ۔” جی آیا نُوں “۔ کہوں اور جب وہ تشریف لے آئیں تو، انہیں ٹیلی فون کر کے پُوچھوں کہ۔۔۔
” بعد مُدّت کے ، لائے ہو تشرِیف !
خوش تو ہیں ، آپ کے ، مزاج شرِیف ؟ “
پھِر سوچتا ہوں کہ ۔ ” مزاج شریف “۔ کی ترکیب استعمال کرنے پر کہیں، جنرل مشرف ، مجھے ۔” شرِیف برادران“۔ کا تعلق دار سمجھ کر ناراض ہی نہ ہو جائیں ۔ جنرل ہو یا ایڈمرل ، ریٹائر ہونے کے بعد بھی، طاقتور ہوتا ہے کہ اُس کے ،حاضر سروس Juniors اُس کی عِزّت میں فرق نہیں آنے دیتے۔اپنے ریٹائرڈ، ایڈمرل فصیح بخاری صاحب کو ہی لے لیجئے ، جِس دھج سے، کسی مجلس میں جاتے ہیں ، اُن کی شان سلامت رہتی ہے ۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ایڈمرل (ر) فصیح بخاری دونوں سیّد بھی ہیں اور ۔” ہم اُمتّی لوگ “۔ سیّدوں کے بے حد احترام کرتے ہیں ۔ جناب پرویز مشرف ، جمہوری حکومت کو ختم کر کے، اقتدار سنبھالنے والے واحد سیّد جنرل تھے ۔جنرل ایوب خان پٹھان ۔ جنرل یحییٰ خان قزلباش اور جنرل ضیاءاُلحق ارائیں تھے ۔ جِس طرح بابا بُلّھے شاہ نے شاہ عنایت قادری (ارائیں) کو اپنا پِیر بنا لِیا تھا ، ہمارے کئی سیاستدان سیّدوں نے بھی ،جنرل ضیاءاُلحق کو پِیرو مُرشد تسلیم کر لِیا تھا ۔
قارئین ! مَیں موضوع سے بھٹک گیا ہوں ۔ مَیں تو جنرل پرویز مشرف کی حمایت کرنا چاہتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جنرل ایوب خان ( بعد میں فیلڈ مارشل اور صدر کنونشن مسلم لیگ) تو اقتدار سے دستبردار ہونے کے بعد سیاست سے کنارا کش ہو گئے تھے ۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار چھوڑنے کے بعد ( اپنے گھر میں خود کونظربندکر کے) مُغل بادشاہ ۔”شاہ جہاں “۔کی طرح باقی زندگی گزار دی تھی ۔ جنرل ضیاءاُلحق ہوائی حادثے میں مارے گئے ، چنانچہ جناب پرویز مشرف، واحد جنرل ہیں جو اقتدار سے دستبردار ہونے اور اپنی مرضی سے جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد بھی ، سیاست میں ہیں ۔ ایم کیو ایم کے قائد، الطاف حسین اور۔” منہاج اُلقرآن “۔کے سربراہ، علّامہ طاہر القادری کی طرح ۔ فرق صِرف یہ ہے کہ الطاف بھائی نے، ملکہءبرطانیہ اور علّامہ طاہر القادری نے ملکہءکینیڈا ،سے وفاداری کا حلف اُٹھا کر ، بالترتیب برطانیہ اور کینیڈا کی شہریت حاصل کر رکھی ہے ۔ اتفاق سے دونوں ملکاﺅں کا نام۔” الزبتھ دوم “۔ہے ، لیکن الیکٹرانک میڈیا پر، مناظرہ کرنے والے اکثر سیاستدانوں کو یہ فرق معلوم نہیں ( اب میں نے اُن کی معلومات میںاضافہ کرنے کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا ) ۔
الطاف بھائی اور علّامہ القادری ، برطانیہ اور کینیڈا کی شہریت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ، لیکن جنرل ( ر)پرویز مشرف کے پاس ( فی الحال) صِرف پاکستانی شہریت ہے اور وہ پاکستان واپس آکر، نہ صِرف آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر خود انتخاب لڑنا چاہتے ہیں بلکہ قومی اسمبلی کی ہر نشست پر بھی اپنے امیدوار کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اگر اُن کی مسلم لیگ نے، عام انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی تو وزیرِاعظم بھی بننا چاہیں گے۔ ہمارے ایک سابق صدر، جناب فاروق احمد لغاری ، بھی اپنی پارٹی۔” پاکستان مِلّت پارٹی “۔بنا کر اور کُچھ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر کے، قومی اسمبلی کے رُکن تو منتخب ہو گئے تھے ، لیکن وزیرِاعظم نہیں بن سکے ۔ مجھے اُن پر ، اُس وقت بہت ترس آتا تھا جب وہ ۔” مِسٹر سپیکر سر!“۔ کہہ کر کوئی آئینی نُکتہ بیان کِیا کرتے تھے ۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے ، اقتدار میں رہ کر مسلم لیگ (ق)تو بنوائی ،لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرح اُس کی صدارت قبول نہیں کی ۔ جنرل ضیاءاُلحق کے نقشِ قدم پر چلے ۔ جنرل ضیاءاُلحق نے محمد خان جونیجو کی قیادت میں ،مسلم لیگ بنوائی تھی، جنرل پرویز مشرف نے، معزول وزیرِاعظم ،میاں نواز شریف کے ساتھیوں کو توڑکر پہلے، میاں محمد اظہر کو اُس کا صدر بنوایا اور پھِر چودھری شجاعت حسین کو ۔ چودھری صاحب کو تو جنرل صاحب نے ” حلالہ وزیرِاعظم “ ۔ بھی بنوا دیا تھا ، لیکن وزارتِ عظمیٰ کے اصل مزے تو مِیر ظفر اللہ جمالی اور اُن کے بعد شوکت عزیز نے لُوٹے-
چودھری شجاعت حسین کو سربراہی میں، مسلم لیگ کو ،جناب آصف زرداری نے ۔” قاتل لیگ“۔کہا تھا اور چودھری برادران۔ پیپلز پارٹی کو پاکستان توڑنے والی پارٹی قرار دیتے تھے ، لیکن اب شیر و شکر ہیں ۔ جنرل (ر) مشرف کے دور میں ۔” پڑھا لِکھا پنجاب“۔ کے وزیرِاعلیٰ چودھری پرویز الٰہی ، جنہوں نے دس بار( یعنی پچاس سال تک) جنرل مشرف کو، وردی سمیت صدر منتخب کرانے کا اعلان /وعدہ کِیا تھا ۔ وہ اب نائب وزیرِاعظم ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کی سِیٹ ایڈجسٹمنٹ سے پہلے اگر جنرل (ر) مشرف وطن واپس نہ آئے تو بہت دیر ہو جائے گی۔2002ءکے انتخابات سے پہلے، عمران خان ۔صدر جنرل پرویز مشرف کے منظورِ نظر تھے اور علّامہ طاہر القادری بھی۔ دونوں لیڈروںکے کارکن، اپنے اپنے لیڈر کو، وزیرِاعظم بنائے جانے کی خبروں سے، مجالسں گرم کرتے رہے ،لیکن وہ مجلسیں سونی ہی رہیں۔ کیا اب عمران خان اور علّامہ طاہر القادری، اپنے سابق ممدوح، جنرل پرویز مشرف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے ؟۔ قائدِ تحریک الطاف بھائی سے، لندن میں، ممکن ہے معاملہ طے ہو گیا ہو! ۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف نواب اکبر بگٹی اوربے نظیر بھٹو کے قتل اور لال مسجد آپریشن کے مقدمات ہیں۔ مقدمات تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب آصف زرداری کے خلاف بھی تھے، لیکن این آر او ہُوا ۔10اپریل 1986ءکو محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی بھی کسی نہ کسی طرح کے این آر او کا نتیجہ تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میںکرائے جانے والے، این آر او کا، جناب آصف زرداری کو ۔ ” قائد عوام کے رُوحانی فرزند“۔ کی حیثیت سے فائدہ ہوا۔ پیپلز پارٹی اُن کا جہیز ثابت ہوئی اوروہ نان گریجویٹ ہونے کے باوجود ،صدارت کے منصب پر بھی فائز ہو گئے۔ فوج نے انہیں کُچھ نہیں کہا اور پاکستان کی طاقتور ترین سُپریم کورٹ اُن کا ،کُچھ نہیں بگاڑ سکی ۔ کل کلاں اگر ، صدر زرداری اور جنرل پرویز مشرف (ر) میں کو ئی این آر او کرا دیا جاتا ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف وزارتِ عظمیٰ سنبھال لیتے ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔ پھِر مَیں اپنے ”سابق محبوب صدر“ کی پیشگی حمایت کیوں نہ کردوں؟ ۔ مَیں پرانے دور کے شاعر، شرف کی طرح پچھتانا نہیں چاہتا ،جنہوں نے کہا تھا کہ۔۔۔
” مَر کے بھی ، اُس شہہ خُوباں کی نہ صُورت دیکھی
خواب میں بھی ، نہ مشرّف ہُوئے دِیدار سے ہم “

ای پیپر-دی نیشن