• news

جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی

پاکستان مسلم لیگ کے قائد و سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے نگراں حکومت کے قیام کے ایک ہفتہ کے اندر وطن واپس آنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں عدالتوں کا سامنے کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اگر عدالتیں مجھے سزا دینا چاہیں تو یہ مجھے ملنی چاہیئے کیونکہ میں نے پاکستان اور اس کی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے اور پاکستان کو نہ صرف معاشی طو رپر مستحکم کیا بلکہ امن و امان کی صورت حال کو بھی بہتر کیا تھا۔
ہمیں معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بالآخر پاکستان آنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے اور ان کی آمد مارچ کے آخر میں ہوگی اور زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ 23مارچ کو واپسی کا اعلان کریںگے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وطن واپسی کے سلسلے میں پرویز مشرف کو عبوری سیٹ اپ کے قیام اور ملکی و عالمی ضمانت کاروں کے سگنل کا انتظار تھا۔ انہیں خوف تھا کہ وفاق میں اقتدار پر براجمان پیپلز پارٹی اور بالخصوص پنجاب میں حکمراں مسلم لیگ ”ن“ ان کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پچھلی بار اعلان کے باوجود مشرف کی وطن واپسی اس لئے بھی ممکن نہیں ہوسکی تھی کہ ان کے ملکی و عالمی گارنٹرز نے جن کی ایماءپر کسی مشکل کا سامنا کئے بغیر بیرون ملک چلے گئے تھے انہیں باور کرا دیا تھا کہ فی الحال ملک کی صورت حال ان کی واپسی کےلئے سازگار نہیں لیکن اس بار ان ضمانت کاروں نے بھی ”اوکے“ کا سنگل دے دیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پرویز مشرف سمجھتے ہیں کہ عبوری سیٹ اپ کا قیام اگرچہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی مشاورت سے عمل میںآئے گا لیکن اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ”ن“ اس پوزیشن میں نہیں ہوں گی کہ سابق صدر کیلئے مشکلات پیدا کرسکیں لہٰذا اس بار پاکستان آمد کا اعلان حتمی ہوگا اس حوالے سے تمام تیاریاں مکمل ہیں اور پہلے کی طرح سے طے کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف دبئی سے پاکستان آئیں گے۔ جنرل مشرف کو پوری توقع ہے کہ سابق صدر اور سابق آرمی چیف ہونے کے ناطے عبوری حکومت انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کرے گی۔
دو روز پیشتر راقم اپنے ایک صحافی دوست حسنین گیلانی کے ہمراہ اسلام آباد میں چک شہزادہ میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے گھر کو دیکھنے کیلئے گئے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کا گھر کئی ایکٹرز پر مشتمل قلعہ نما تھا۔ ان کے ملازمین نے ہمیں بتایا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اب پاکستان آرہے ہیں اور اب ہم نے ان کے کہنے پر ان کے گھر میں رنگ و روغن شروع کردیا ہے گھر کے باہر گھر کی سکیورٹی کیلئے مسلح نوجوان بھی کھڑے تھے۔جن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف بہت جلد پاکستان آنے والے ہیں۔
قارئین کرام! پرویز مشرف وہ شخص ہے جس نے لال مسجد کی سینکڑوں بچیوں اور بچوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا کر ثابت کیا کہ وہ انسان کے روپ میں اک ایسا عفریت ہے جسے بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے میں راحت ملتی تھی۔ اس کی وحشت کی داستانیں خیبر سے کراچی تک بکھری ہوئی ہیں اور اس کی خون آشامی کی وجہ سے ہزاروں گھروں میں آج بھی بین ہوتے ہیں۔ کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کو روتی ہے تو کوئی باپ اپنے بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ جانے پر آنسو بہاتا ہے۔ کسی گھر سے بہنوں کے نوحوں کی آواز سنائی دیتی ہیں۔ پرویز مشرف کی زیادتیاں اگر صرف شریف خاندان تک محدود رہتیں تو شاید نواز شریف بھی اسے معاف کردیتے لیکن یہ تو اٹھارہ کروڑ عوام کا مجرم ہے اور اسے معاف کرنے کا اختیار صرف انہی خاندانوں کو ہے جن کے بیٹے‘ بیٹیاں‘ بزرگ اور جوان اس شخص کے ظلم کا نشانہ بنے۔ پاکستانی عوام کا خون لال مسجد میں بہا ہو یا ڈیرہ بگٹی میں۔ بے گناہ پاکستانی عوام خودکش دھماکوں میں شہید ہوئے ہوں یا ڈرون حملوں کا نشانہ بنے ہوں ان کے خون کا ایک ایک قطرہ پرویز مشرف سے حساب مانگتا ہے اور یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ جسے پاکستانی عوام ذرہ برابر بھی عزیز ہوں وہ پرویز مشرف جیسے آدمی کیلئے معافی طلب کرے نہ اس کی سفارش کرے پرویز مشرف وہ شخص ہے جس کے لہو لہو عہد اقتدار میں دس سے بارہ جید ترین علمائے کرام کو شہید کیا گیا۔ مسجدوں کے ہال‘ برآمدے اور صحن بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوئے انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑے۔ ایک کلمہ گوبھائی کے ہاتھوں دوسرے کلمہ گو بھائی کا خون ہوا۔ اسلامیان پاکستان کا خون گلیوں‘ محلوں میں یوں بہا جیسے بڑی عید پر قربانی کے جانوروں کا خون بہتا ہے۔ سینکڑوں پاکستانیوں کو پانچ پانچ ہزار ڈالر کی حقیر رقم کے عوض بیچا گیا اور اس سودے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی عفت مآب بیٹی بھی بیچ ڈالی گئی۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کا یہ بیان بھی اخبارات میں موجود ہے کہ میں نے لال مسجد میں جو کیا اس پر مجھے فخر ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا سیاست میں کردار ختم ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی ڈرون حملوں‘ توانائی کے بحران سمیت تمام مسائل پرویز مشرف کی وجہ سے ہیں۔ جبکہ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماورائے آئین اقدامات کی وجہ سے سابق صدر کی آئینی موت ہوچکی ہے اور وہ آئین کے آرٹیکل 63, 62کے مطابق سیاست کے بھی اہل نہیں ہیں۔جنرل (ر) پرویز مشرف کی اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کہنے کو تو آل پاکستان ہے۔لیکن اس میں شامل جنرل صاحب کے چاہنے والوں اور وفادار لوگوں کی تعداد یقیناً وہ نہیں ہے جو انہیں ملک سے دور بیٹھے ہوئے نظر آ رہی ہے۔
میاں نواز شریف کے بیانات کے بعد تو اس وقت کے وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے اعلانیہ سابق صدر کے احتساب سے معذوری کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ سابق صدر کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا اور ان کا احتساب کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے 3 ستمبر 2009ءکے اخبارات میں اس نوعیت کی خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورہ سعودی عرب اور شاہ عبداللہ کے علاوہ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ مقرن سے ملاقاتوں کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ سعودی عرب اور امریکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا احتساب نہیں ہونے دے گا ویسے بھی پاکستان میں کبھی بھی جنرلوں کااحتساب نہیں ہوا اور نہ ہی جنرل (ر) پرویز مشرف کا احتساب ہوگا ہماری اطلاع کے مطابق جنرل (ر) پرویز مشرف نادیدہ قوتوں کے اشارے پر پاکستان آرہے ہیں کئی ریٹائرڈ جنرلوں نے پاکستان میں سیاسی پارٹیاں بنائیں لیکن وہ کبھی الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکے پرویز مشرف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا اور نہ ہی وہ اقتدار میں آسکیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن