مفت میں دیدیا تمہیں دل بھی!
صدر زرداری نے فرمایا ہے کہ ”غلام اسحاق نہیں بنوں گا بلکہ جیتنے والوں کو اقتدار دے دوں گا“ واہ جی واہ!
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
صدارت ہے، وزارت سے سروکار ہی نہیں
اسکے بعد جناب صدر نے مزید فرمایا کہ کوئی طاقت جمہوریت نہیں چھین سکتی۔ پھر تجاہل عارفانہ کے ساتھ فرمایا کہ چھیننے کی کوشش ہوئی تو بھرپور مزاحمت کرینگے۔ اسکے بعد صدر زرداری گویا ہوئے کہ عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہو گی۔ پھر توقف کے بعد بولے کہ لاہور میں گھر بنانے کی دیرینہ خواہش تھی اور پھر انکشاف فرمایا کہ انتخابی مہم تو یوسف رضا گیلانی چلائیں گے۔ اسکے بعد بھی کافی کچھ فرمایا لیکن کیا ہے کہ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی پھر تاب سماعت رہی نہ قوت گویائی ‘ بس صدر زرداری کا چہرہ اور مخصوص مسکراہٹ باقی رہ گئی۔ صدر زرداری کو خدا نے دو چیزیں شاندار دی ہیں۔ ایک دماغ جو غضب کا ہوشیار اور چالو ہے۔ دوسرے دل جو بڑا قوی، توانا، بھرپور اور متوالا ہے۔ اب جبکہ صدر زرداری ساٹھ کے پیٹے میں ہیں اور سبھی کو لپیٹے ہوئے ہیں۔ انکی گفتگو کا لب لباب جو بھی ہو، البتہ اس کا تنقیدی مغز یا جواب یوں ہے کہ وہ جس نام نہاد جمہوریت اور جمہوریت میں لپٹی آمریت کی بات کر رہے ہیں تو انہوں نے اس جملے میں تین طاقتوں یا تین دشمنوں کو للکارا ہے۔ ”کوئی طاقت جمہوریت نہیں چھین سکتی“ پاکستان میں بچی کھچی جمہوریت پر قبضہ یا خاتمہ تین طاقتیں ہی کر سکتی ہیں مثلاً امریکہ جب صدر زرداری سے نالاں ہو جائے جیسا کہ آج کل صدر زرداری نے اوبامہ اور کانگریس کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور جو کچھ آجکل امریکہ کہہ رہا ہے‘ صدر زرداری مسلسل اسکی خلاف ورزی کر رہے ہیں جیسے ایران سے گیس کا معاہدہ۔ مطلب یہ کہ صدر زرداری نے امریکہ کو درپردہ دھمکی دی ہے کہ بندے کے پتر بن جاﺅ ورنہ مجھے بھی تمہارا ٹینٹوا دبانا آتا ہے۔ اس حوالے سے تو وہ واقعی جیالے متوالے ہمت والے اور مردِ حُر ہی ثابت ہوئے ہیں۔ آخر کب تک امریکہ کے ہر اشارے پر بندہ واری جائے۔ صدر زرداری نے دوسری تنبیہہ فوج کو کر دی ہے کہ فوجی بھائیو اپنی اپنی بیرکوں اور اپنے اپنے یونیفارم میں رہو۔ جمہوریت کی بساط نہ لپیٹنا کیونکہ ہم نے بھی کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ تیسری وارننگ نواز شریف کو دی ہے کہ زیادہ میرے خلاف پروپیگنڈہ نہ کریں کبھی کل کو تمہاری وجہ سے ملک میں الیکشن کا ماحول نہ رہے اور نگران حکومت مہمان کے بجائے میزبان بن بیٹھے اور بہت سارے لوگوں کے خوابوں کے جنازے اٹھانے پڑیں۔
صدر زرداری نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت چھیننے کی کوشش کی تو مزاحمت کرینگے۔ گویا تنگ آمد بجنگ آمد والا ماحول بن رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ صدر اپنی صدارت بھی بچائیں گے اور اگلے پانچ سال ڈٹ کر بھی رہیں گے (پھر ہمیں تو اس ملک سے کوچ ہی کرنا پڑیگا) زرداری نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ”عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہو گی“ یقیناً تاخیر نہیں ہو گی لیکن اور بہت کچھ ایسا ہونے والا ہے کہ انتخابات کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔ آصف زرداری نے گیلانی کو الیکشن مہم کا انچارج بنانے کی ہوشربا خبر بھی سنائی۔ گیلانی اب ایک ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں۔ ویسے بھی انکے جمہوری کارنامے یاد کرنے سے حافظے کو جھٹکے لگتے ہیں۔ انکی یادیں عوام کے حافظوں پر محض بوجھ ہیں۔ کون چاہے گا کہ دوبارہ انکے درشن کرے اور انکے بھاشن سنے جن میں نہ حقیقت ہوتی نہ سچائی نہ دلربائی۔ ان کیلئے یہی کافی ہے کہ زرداری نے انہیں یاد رکھا ہے ورنہ سلمان تاثیر، بابر اعوان، جمشید دستی، فوزیہ وہاب، فردوس عاشق اعوان، جہانگیر بدر، ناہید خان، صفدر عباسی اور نجانے کتنے ہیں جو انکے حافظے اورگڈبک سے خارج ہیں۔ صدر زرداری نے لاہور میں گھر بنانے کی خواہش نجانے کب سے پال رکھی تھی۔ قرین قیاس ہے کہ یہ خواہش فروری 2008ءمیں پیدا ہوئی تھی جب انہیں اپنے ”صدر“ بننے کا قوی یقین ہو گیا تھا اور وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بن بیٹھے تھے۔ تعجب صرف اس لئے ہے کہ صدر زرداری کی عمر اب 60 سال ہے۔ دوسرے گھر کی خواہش تب سر اٹھاتی ہے جب ”گھر والی“ ہوتی ہے۔ گھر والی بیچاری تو اللہ کو پیاری ہو گئی۔ رہ گئے بچے تو بختاور آصفہ زیادہ تر دوبئی اور بلاول بھٹو کا زیادہ وقت برطانیہ امریکہ دوبئی اور کراچی اسلام آباد میں گزرتا ہے۔ صدر زرداری جب تک صدر ہیں تب تک اسلام آباد ہی ان کا اصل ٹھکانہ اور آشیانہ ہے۔ ”لاہور“ میں رہنا یا ”لاہوری“ کہلانا ہر ایک کیلئے ایک بڑا اعزاز ہوتا ہے۔ بہت لوگ خود کو ”لاہوری“ ثابت کرنے میں توانائی کا بڑا ذخیرہ خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ بیس تیس سال پہلے ہی کسی ”پِنڈ“ نکل آتے ہیں لیکن لاہور سے ناطہ جوڑنا اور خود کو لاہور کا بتانا ایک فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے کیونکہ لاہور سیاسی، ادبی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، ثقافتی، سیاحتی، کھیل، تھیٹر، شوبز ہر لحاظ سے زرخیز ہے۔ لاہور میں زندگی توانا اور حسین لگتی ہے۔ لاہور زندہ دلان کا شہر ہے اور دنیا بھر میں سیاحوں کیلئے بے پناہ کشش کا حامل بھی‘ اس لئے صدر زرداری کا لاہور پر عاشق ہونا فطری سی بات ہے۔ ہم لاہوری وسیع القلب اور وسیع المشرب مشہور ہیں۔ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ لاہور آئینگے تو ان کا دامن خوشیوں سے بھرا رہے گا لیکن اسکے بعد لاہور اور لاہوریوں کا کیا بنے گا۔ اسکے بارے میں کوئی پیشنگوئی نہیں کی جا سکتی۔ ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا اللہ مالک ہے۔ یا پھر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کرے ہمارے صدر کے بھی ہاتھ پیلے ہو جائیں اور ان کے سہرے کے پھول کھل جائیں لیکن ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ صدر محترم تن تنہا سو کنال کے گھر میں آخر کیا کرینگے؟ یہ سوال عمران خان کے حوالے سے بھی بہت تنگ کرتا ہے کہ وہ 300 کنال اراضی پر مشتمل گھر میں اکیلے کیا کرتے ہیں؟ یہ سوال نواز شریف برادران کے حوالے سے بھی اٹھتا ہے کہ وہ بھی سینکڑوں کنالوں پر محیط رائیونڈ محل کو کیسے برتتے ہیں لیکن مجھے خود کئی بار رائیونڈ محل دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے پھر میاں شریف نے اپنا پورا خاندان اکٹھا کر رکھا ہے اور ملازمین کی بھی پوری فوج ہے اس لئے وہاں کھپت ہو جاتی ہے۔ اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے حالات زندگی دیکھنے کے بعد اکثر فلپائن کے آنجہانی صدر مارکوس اور ان کی اہلیہ امیلڈا مارکوس یاد آ جاتے ہیں۔ ایک طرف کراچی جل رہا ہے۔ ہر روز کراچی سے یا تو بوری بند لاشیں ملتی ہیں یا سرعام گولیاں چلتی ہیں۔ حال ہی میں اصفہانی روڈ پر بم دھماکوں نے انسانیت کے پرخچے اڑا دئیے۔ بلوچستان میں دو مرتبہ لواحقین کھلے آسمان تلے اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر احتجاج کرتے رہے۔ پاکستان میں روزانہ سو سے زائد افراد بے موت مارے جاتے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ 40 ہزار کے اعداد سے تجاوز کر جاتی ہے۔ پیر پگاڑا نے کہا ہے کہ انتخابات خونیں ہوں گے۔ رمال نجومی عالم دست شناس عامل بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ خون خرابہ ہو گا۔ دوسری طرف مہنگائی کی لہر نے ہر شخص کا دیوالہ نکال دیا ہے۔ ہر ہفتے اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ تنخواہیں وہیں کی وہیں رہتی ہیں بالخصوص پٹرولیم مصنوعات میں اضافے اور لوڈشیڈنگ نے پاکستانیوں کو تقریباً نیم پاگل کر دیا ہے۔ کوئی شخص دوسرے کی بات سننے کیلئے تیار نہیں۔ ہر شخص لڑنے مرنے پر آمادہ ہے۔ تعلیم اس قدر مہنگی ہے کہ والدین اپنا لہو نچوڑتے ہیں تو بھی پورا نہیں پڑتا۔ اس وقت پاکستان کی تمام صنعتیں کاروبار ٹھپ ہیں۔ ہر آدمی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ ذرائع آمدن منجمد ہیں۔ روپے کی قیمت اس قدر گر گئی ہے کہ ڈالر پونڈ یورو تو دور کی بات، پاکستان کی کرنسی انڈیا اور بنگلہ دیش سے بھی کمتر اور حقیر ہے۔ ایسے میں ہمارے غریب ملک کا صدر کراچی، لاڑکانہ، نوڈیرو، اسلام آباد، سوئٹزرلینڈ، امریکہ، برطانیہ، فرانس، دوبئی میں ذاتی محلات ہونے کے باوجود لاہور میں گھر بنانے کی خواہش دل میں موجزن ہے۔ یہ دنیا کا واحد حل ہے جو دام طلب کرتا ہے ورنہ ہم جیسے درویش منش تو یہی کہتے ہیں کہ....
مفت میں دے دیا تمہیں دل بھی
شرط رکھی نہ کوئی دام لیا