پاک ایران گیس منصوبہ اور امریکی عجوبہ
پاکستان سے نکلنے والی گیس سی این جی کی صورت میں عجیب و غریب تاثیرات دکھاتی رہتی ہے لیکن ایرانی گیس نے تو کمال ہی کر دکھایا ہے جونہی اس گیس کا رُخ پاکستان کی جانب گھومتا ہے، امریکہ بہادر کے گیسوئے سیاست اس گیس کے مخالف رُخ پر اُڑنے اور بکھرنے لگتے ہیں پھر کسی انجانے طریقے سے یہ ایرانی گیس امریکہ کے معدے میں اتر کر گھومنے لگتی ہے۔ اس گھماﺅ کے دباﺅ سے امریکہ بہادر کا دماغ چکرانے لگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب دماغ چکرانے لگے تو زبان اور دماغ کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور زبان سے واہی تباہی نکلنے لگتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان پیٹرک وینٹرل کے بیان سے لگتا ہے کہ موصوف کے دماغ میں ایرانی گیس کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی ہے اور ان کے خشک دماغی ریشوں میں اس کی رگڑ سے آگ سی لگ گئی ہے۔ انہوں نے بھڑکیلی زبان میں بڑھک لگائی ہے کہ ایران کے ساتھ گیس منصوبہ پاکستان کےلئے سخت مشکلات کا الاﺅ بھڑکا سکتا ہے۔ پیٹرک صاحب نے یہ شعلہ زن دھمکی بھی دی ہے کہ پاکستان کو ایرانی گیس دوست سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہ سرگرمیاں امریکہ پاکستان دوستی کو گیس آلودہ کر سکتی ہیں اور اس گیس آلودگی سے پاک امریکی تعاون کے گیس غباروں میں دھماکہ ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ گیس آلودگی بین الاقوامی برادری کے پیٹ میں بھی غبار پیدا کر سکتی ہے اور اگر بین الاقوامی برادری کا پیٹ اس گیسی غبار کی وجہ سے پھول گیا تو کئی اور بدبودار دھماکے ہو سکتے ہیں۔ اس دھواں دھار بیان سے یہ اشارے بھی ملتے ہیں کہ امریکہ بہادر نے اپنے گیس ماہرین کو جائزے کے کام پر لگا دیا ہے تاکہ گیس منصوبہ توڑ، اقدامات تجویز کئے جا سکیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
امریکہ بہادر نے اپنی دھمکی کی دھمک پاکستان میں زیر عمل بجلی کے پیداواری منصوبوں تک بھی پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ امریکی ترجمان کے مطابق امریکہ پاکستان میں مختلف منصوبوں سے 400 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ امریکی مدد سے مکمل ہونے والی ایک ٹربائن چند دنوں میں چالو ہونے والی ہے جس کے چالو ہونے 140 میگاواٹ بجلی ملنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن پاک ایران گیس منصوبہ امریکی تعاون کو گیس برد اور امریکی اعتماد کو خرد برد کر سکتا ہے۔ امریکہ بہادر کے ایک سفارتی سپہ سالار نے پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی دھمکی آمیز تلوار لہراتے ہوئے تجویز دی ہے کہ پاکستان کو ایران کے بجائے ترکمانستان سے براستہ افغانستان گیس حاصل کرنا چاہئے لگتا ہے اس سفارتی سپہ سالار کی نگاہ کمزور ہے۔ اسے ہی دکھائی نہیں دیا کہ ایران پاکستان گیس منصوبے کا آدھا کام تقریباً مکمل ہے اور ایران ڈیڑھ ارب ڈالر لگا کر اپنے علاقے میں 485 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن بچھا چکا ہے جبکہ 780 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی پاکستانی علاقے میں تنصیب کا کام پاک ایران کنسوریشم کے تحت 11 مارچ سے آغاز پذیر ہونے والا ہے اور پندرہ ماہ کی قلیل مدت میں 215 ملین کیوبک میٹر گیس کی روانی پاکستانی معیشت کی نیم مردہ رگوں میں نئی روح پھونک سکتی ہے اور خوشحالی کا توقعاتی چراغ روشن کر سکتی ہے۔ ایسا چراغ جس کے بارے میں ایران پاکستان دوستی پورے یقین کے ساتھ یہ اعلان کر سکے گی کہ....
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
جہاں تک اس پھونک کا تعلق ہے جو امریکہ پاکستان کے کانوں میں مار رہا ہے۔ کہ ترکمانستان سے گیس معاہدہ کیا جائے تو عرض ہے کہ ترکمانستان سے گیس پاکستان تک پہنچانے کا منصوبہ ابھی تک زمین پر ایک قدم بھی جما نہیں پایا ہے اور پھر جب یہ گیس لائن افغانستان کے راستے پاکستان آئے گی تو امریکہ بہادر اس امر کی کیا ضمانت دے گا کہ یہ گیس طالبان کو اپھارہ نہیں کرے گی اور طالبان یہ عجوبہ نما منصوبہ بے نشان بنانے کےلئے کوئی دھماکہ نہیں کریں گے۔ ہر پاکستان اچھی طرح جانتا ہے کہ کرزئی امریکہ کی آشیرباد سے بننے والی ہر گیس طالبان کے دماغ کو چڑھ جاتی ہے اور انہیں کسی نہ کسی دھماکہ خیز تبخیر میں مبتلا کر دیتی ہے۔
3 مارچ کو محترم زرداری صاحب کا ایک زور دار بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ پاک ایران گیس منصوبے کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ اس منصوبے کو ہر صورت میں مکمل کیا جائے گا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ زرداری صاحب کا زرین بیان محض ایک بیاناتی گیس غبارہ نہیں ہے لیکن پیپلزپارٹی کے پیدائشی حاسدین کا خیال ہے کہ بلکہ سوال ہے کہ اس گیس منصوبے کا آغاز عین اس وقت کیوں کیا جا رہا ہے جب کہ اس پارٹی کی حکومت ایک ہفتے کی مہمان رہ جائے گی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زرداری صاحب اس منصوبے کا افتتاح کر کے آئندہ الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں یا پھر دوسری صورت میں اس منصوبے کے غبارے میں امریکہ مخالف گیس بھر کے اسے آنے والے متوقع پی پی مخالف حکومت کے ہاتھ میں پکڑانا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ بہادر اسے نشانہ بنائے اور پھر زرداری صاحب پی پی مخالف حکومت کو نشانہ بنا سکیں۔ ہم اس اندیشے سے متفق نہیں ہیں کیونکہ زرداری صاحب اس نشانہ انگیز عہد سے نکل چکے ہیں جس کی یاد اس شعر سے تازہ ہوتی ہے ....
کب جوانی میں کوئی تیر خطا ہوتا تھا
عین اہداف پہ لگتے تھے نشانے اپنے
پاک ایران گیس منصوبے پر امریکہ کی تبخیری پھڑپھڑاہٹ دیکھ کر ہمیں نیلی بار کے ایک پیر صاحب یاد آ رہے ہیں جو دہکتے کوئلوں کی گیس سے جنات نکالنے کے ماہر تھے لیکن خود اپنے پیٹ میں پھرتا ہوا تبخیری گیس کا جن عمر بھر نہیں نکال سکے۔ جب گیس معدے سے دماغ کی طرف چڑھائی شروع کرتی تھی تو پیر صاحب کا دیسی مرغ تپ کر امریکی دماغ جیسا ہو جاتا تھا اور وہ اپنی دماغی تپاہٹ مریدوں پر بالکل اسی طرح نکالا کرتے تھے جیسے امریکہ پاک ایران منصوبے پر نکال رہا ہے۔