شہباز شریف، بھٹو کا سچا جانشین!
کہتے ہیں بعض اوقات ترنگ میں سچی بات منہ سے نکل جاتی ہے۔ عوامی زبان میں اسے مستی بھی کہتے ہیں اور مستی کے بھی کئی معنی ہیں اتراہٹ بھی مستی ہے۔ خودسری بھی مستی ہے بعض اعتبار سے مدہوشی بھی مستی ہے لیکن صدر آصف زرداری کی یہ بات ترنگ یا مستی سے ہٹ کر بے دھیانی میں منہ سے نکلنے والی بات ہے۔ انہوں نے لاہور میں اپنے نئے گھر میں قومی اخبارات کے ایڈیٹروں، پیپلز پارٹی کے حامی اور جناب زرداری کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے کالم نگاروں، اینکر پرسنز اور پیپلز پارٹی کی کوریج کرنے والے رپورٹروں کو کھانے پر مدعو کیا۔ اس موقع پر سوال کیا گیا پنجاب میں تو لیپ ٹاپ، سولر انرجی لیمپ تقسیم کئے جا رہے ہیں آپ کس بل بوتے پر الیکشن لڑیں گے اس کے جواب میں انہوں نے وہ بات کی جس کا تمہید میں ذکر ہے کہ ”بھٹو کی سوچ رہی ہے کہ عوام کو فائدہ پہنچنا چاہئے۔ یہ سب اس کا حصہ ہے ”یعنی پنجاب میں جو طلبا و طالبات میں لیپ ٹاپ یا سولر انرجی لیمپ تقسیم کئے جا رہے ہیں یہ ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ ہے۔ اگر ان کی یہ بات درست ہے تو پھر اس کا مطلب اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھٹو کی عوامی مفاد کی سوچ کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنایا ہے۔ اس طرح وہ سیاسی مخالف ہونے کے باوجود بھٹو کی سوچ کے امین بلکہ جانشین ہو گئے اور ایسا کچھ بھی نہ کرکے جناب زرداری بھٹو کی سوچ کو عملی شکل دینے میں ناکام رہے ہیں حالانکہ ان کا سماجی مرتبہ بھٹو کے داماد کی حیثیت سے بلند ہوا اور بھٹو ہی کے نام پر وہ صدر مملکت کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے مستقبل کی سیاست کے لئے بھی بھٹو کے نام کے محتاج ہیں اور اسے آئندہ بھی اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنانے کے لئے انہوں نے بھٹو کی ذات کو اپنے بچوں کے نام کا حصہ بنا دیا ہے مثلاً بلاول بھٹو زرداری ایسا ہی ہے جیسے کوئی خود کو ارشاد راﺅ ہاشمی کہلائے۔ یہاں موجود ایک صحافی نے اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں آگے بڑھایا ”بعض سیاسی جماعتوں نے نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا ہے کوئی نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تو کوئی سولر لیمپ تقسیم کر رہا ہے۔ کوئی جماعت یوتھ پالیسی بنا رہی ہے آپ نوجوانوں کے لئے کیا کریں گے؟ صدر نے اپنے پیچھے سٹیج پر لگی ہوئی بلاول زرداری کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس کا جواب یہ ہے ”یعنی وہ بلاول زرداری کی صورت میں نوجوانوں کو بلاول دے رہے ہیں جو کل صدر یا وزیراعظم ہو سکتا ہے مگر دیکھا جائے تو یہ دینے والی بات نہیں بلکہ یہ تو لینے والی بات ہی ہے۔ صدر یا وزیراعظم بننے سے سو فیصد فائدہ بلاول زرداری کو ہے پاکستانی نوجوانوں کو کیا ملے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جب سے طلباءو طالبات میں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور میٹرو بس پراجیکٹ مکمل کیا ہے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما تنقید اور اعتراضات کے لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ الزامات یہ ہیں لیپ ٹاپ سولر لیمپ اور میٹرو بس کے منصوبے میں اربوں کی کرپشن ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے اس سلسلے میں خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے کہ وہ ان منصوبوں میں کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرے۔ اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے رہنماﺅں کو خطوط لکھے گئے ہیں کہ وہ ان منصوبوں میں کرپشن کے حوالے سے معلومات فراہم کریں۔ اب کرپشن ثابت کرنا ان سیاسی رہنماﺅں کی ذمہ داری بن گئی ہے کیونکہ اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو یقیناً شرمندگی کا صدمہ اٹھانا پڑے گا یا پنجاب حکومت بلکہ (ن) لیگ کی جانب سے انہیں غلط الزام تراشی پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف باتیں شروع کر دی ہیں یہ دراصل ثبوت فراہم نہ کرنے کی حکمت عملی ہے کہ ایک ایسے ادارے کو ثبوت کیوں فراہم کئے جائیں جس پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہے حالانکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لیڈروں کو یہ موقع غنیمت جاننا چاہئے کہ میاں شہباز شریف نے اپنے پھنسنے کا اہتمام کر لیا ہے۔
جماعت اسلامی کے اکثر دوستوں کی جانب سے یہ باتیں سنی جاتی ہیں کہ امیر جماعت کے حکم سے یہ کیا، وہ کیا وغیرہ وغیرہ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ امیر جماعت کو لامحدود اختیارات یا ویٹو پاور حاصل ہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات برادرم انور نیازی نے جماعت اسلامی کے آئین کے متعلقہ صفحات بذریعہ فیکس بھجوائے ہیں جن کے مطابق جماعت اسلامی میں شورائی نظام ہے اور امیر جماعت شوریٰ کے فیصلوں کا پابند ہوتا ہے۔