• news

گیس۔۔۔ اور گوادر!

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی بذات خود ایک مقصد نہیں ہوتی بلکہ یہ ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے جو وہ ملک اپنے مفاد میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کالم میں مزید پیشرفت سے پہلے دو بنیادی حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ اولاً بین الاقوامی تعلقات میں مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتے۔ استحکام صرف ذاتی فائدے کو ہے۔ گویا حالات کے تحت دوست اور دشمن تو تبدیل ہو سکتے ہیں۔ SELF INTREST نہیں بدل سکتی۔ دوئم آپ دوست تو بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں! جغرافیائی طور پر پاکستان کے چار پڑوسی ہیں۔ دو ایسے نہیں جو وطن عزیز کو پھلتا پھولنا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ترقی اور خوشحالی کے خواہاں نہیں۔ ان میں پہلے نمبر پر تو مستقبل کی سو پر پاور چین اور دوسرا تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ایران ہے۔ ہندوستان روز اول سے نہ صرف پاکستان کا دشمن ہے بلکہ 65 سال کے قلیل عرصے میں تین جنگیں بھی لڑ چکا ہے۔ پاکستان کو دو لخت کرنے میں بھی اس نے عملاً حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اندرا گاندھی کو سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کا سب سے بڑا تمغہ دیا گیا تو پارلیمنٹ میں اس کا رسمی تعارف کراتے ہوئے سپیکر نے کہا۔
Ladies Gentlemen! I am going to introduce you to a Lady PRIME MINISTER Who has not only made History but also geography.
اس وقت چونکہ پاکستان دشمنی کا زہر اسکے رگ و پے میں سرائیت کر گیا تھا اس لئے وہ مغربی حصہ پر بھی کاری ضرب لگانا چاہتی تھی۔ ہمارا بدمست حکمران یحییٰ خان شراب کے نشے میں دھت رانیوں کی گود میں پڑا ہوا تھا۔ اسے اس بات کا ادراک ہی نہ تھا کہ ملک و قوم پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اندرا گاندھی کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے صدر نکسن نے ساتواں جنگی بیڑا بھیجا مخصوص امریکی مفادات اس بات کے متقاضی تھے کہ مغربی حصے کو کوئی گزند نہ پہنچے اس کا تفصیلی ذکر نکسن نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اندرا بڑی جزبز ہوئی لیکن ایک سوپر پاور کے آگے اس کا زور نہ چل سکا۔ صدر نکسن اسے جن الفاظ میں یاد کرتا تھا اس کا ذکر بھی اخبارات میں آچکا ہے.... گویا ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہے کہ پاکستان ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں رہ سکتا۔ اس کی فوج کا بیشتر حصہ مشرقی بارڈر پر مورچہ بند ہے۔
-2 افغانستان کے ساتھ تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ نہ تو ڈیورنڈ لائن بدلنی ہے اور نہ کوئی مثبت پیش رفت ہونی ہے۔ کنگ ظاہر شاہر ہو پرنس دا¶د یا بیرک کارمل اورکرزئی ہوں۔ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے پٹے ہیں یہ درست ہے کہ امریکی چھتری تلے روس کے خلاف لڑتے ہوئے وقتی طور پر ہم شیر و شکر ہوئے تھے لیکن وقتی مصلحتیں مستقل مخاصمت ختم نہیں کر سکتیں۔
-3 یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ چین اور ایران قابل اعتماد دوست ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری فوجیں انکے بارڈر پر تعینات نہیں ہیں۔ خوشگوار تعلقات میں معاشی معاہدے اور تجارت کی اپنی اہمیت ہے۔ ویسے تو پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن اہم مسائل انرجی ہے۔ گو پانی وافر مقدار میں دستیاب ہے لیکن اس کا استعمال نہیں ہو سکتا صوبائی عصبیت ڈیم نہیں بننے دیتی۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ جو لوگ پانی کا ذخیرہ نہیں کرنے دیتے وہ پانی کے لئے دن رات واویلا کرتے رہتے ہیں۔ بجلی کے لئے چیختے چلاتے رہتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پانی دن بدن گھٹ رہا ہے۔ بجلی روز بروز کم ہو رہی ہے وہ دن دور نہیں جب یہ محض تخیل میں چلی گئی۔اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ۔ یقین نہیں آتا کہ ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ گیس پریشر اتنا کم ہے کہ اکثر گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ کارخانے بند ہو گئے ہیں۔ کھاد درآمد کی جا رہی ہے۔
-3 اسی تناظر میں پاک ایران گیس معاہدہ ہوا ہے۔ چونکہ ایران کے پاس گیس کے وسیع ذخائر ہیں اس لئے وہ پائپ لائین کے ذریعے پاکستان کو مناسب نرخ پر گیس سپلائی کرنے کے لئے تیار ہے۔ پائپ لائن بچھانے کے لئے قرضہ تک دینے کو تیار ہو گیا ہے۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ پاکستان کی معیشت کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔
-4 امریکہ بہادر اس معاہدے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کے ایران کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور اس کی وجہ یہودی ریاست اسرائیل ہے۔ امریکی انتظامیہ کی سوچ کا ہر راستہ تل ابیب سے ہو کر گزرتا ہے۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ مغرب کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ اسرائیل کو وہم ہو گیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ چونکہ ایران اسلامی ملک ہے اس لئے وہ اس کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ ایران چھوٹ تمام دنیا کو یقین ہے کہ اسرائیل کے پاس بے شمار ایٹم بم ہیں۔ پھر اس ڈر خوف کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ محض اسلام دشمنی ہے؟ اگر یہ درست ہے تو پھر اس کا اگلا ہدف پاکستان ہو گا جو اظہر من الشمس نیو کلیر پاور بن چکا ہے۔ جس ملک کو ہتھیاروں سے فتح نہ کیا جا سکے اس کی معیشت تباہ کر دی جاتی ہے۔ اس طرح ہتھیار بے اثر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ امریکہ نے امداد روکنے کی دھمکی دی ہے۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ یہ ملک ہندوستان کو توانائی کی کمی دور کرنے کے لئے نیو کلیئر ری ایکڑ دیتا ہے۔ پاکستان کی درخواست کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ گویا خود تو مدد نہیں کرتا لیکن کسی دوسرے ذریعے سے بھی توانائی حاصل نہیں کرنے دیتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی ڈاکٹر مریض کا خود تو علاج نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی علاج کرنے سے روک دے۔ پاکستان اس دھمکی کو خاطر میں نہ لائے۔ جیساکہ پہلے کیا ہے یہ اس قوم کی معاشی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی امریکی امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ غیروں کی اس جنگ میں ہمیں کودنے کی جو سزا مل رہی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے امریکہ یہ حماقت نہیں کر سکتا۔ اس خطے میں اس کی فوجیں برسرپیکار ہیں۔ وہ پاکستان کی مدد کے بغیر سانس تک نہیں لے سکتیں۔ مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے بڑا سستا سودا کیا‘ ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا۔
-4 گوادر کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت مسلم ہے۔ ہندوستان اور امریکہ اسے چین کو دئیے جانے پر خاصے پریشان ہیں۔ حالانکہ یہ خالص تجارتی اور انتظامی معاہدہ ہے۔ البتہ عطا اللہ مینگل کی برہمی تعجب انگیز ہے۔ وہ ایسے اپنی ملکیت سمجھتا ہے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ دو تین سو سال تک یہ مسقط کا حصہ تھا۔ پماکستان نے اسے خریدا ہے۔ اس تین سو سال کے عرصے میں دو دفعہ بلوچوں نے اسے فتح کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ میر نصیر خان دوم نے (1840-57) نے شہ غازی ولی محمد کی نگرانی میں ایک لشکر بھیجا۔ وہ گوادر تو فتح نہ کر سکا لیکن سلطان مسقط سے تحفتاً پندرہ حبشی غلام‘ پانچ لونڈیاں اور ایک مرصع تلوار لیکر واپس آگیا۔ میر خداداد خان کے وقت اس کے نائب فقیر محمد نے 1861ءمیں گوادر کا محاصرہ کر لیا لیکن تاوان لے کر واپس آگیا۔ اس کے بعد ایک اور مہم بھیجی گئی لیکن نوشیروانیوں کی گڑبڑ کی وجہ سے واپس آگئی۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اخوان قلات نے باامر مجبوری سلطان مسقط کی حاکمیت تسلیم کر لی تھی۔ یہ کہنا کہ چار سو سال پہلے گوادر مکران کا حصہ تھا مدفون منطق ہے۔ اگر اس استدلال کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر بلوچستان کسی زمانے میں ایران کا صوبہ تھا عربوں کے زیر تسلط رہا۔ ایران عرب ایمپائر کا حصہ تھا۔ جو WHERE DO YOU DRAW The LINE جہاں آپکو سوٹ کرے! اس طرح تاریخی حقائق نہیں بدلے جا سکتے۔ گوادر اب اسی طرح بلوچستان کا حصہ ہے جس طرح بلوچستان پاکستان کا جزو لاینفک ہے۔ یہی سوچ سلامتی کی سوچ ہے۔ ذہنی انتشار سے نہ پہلے کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ کل کچھ ملے گا۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن