• news

کشمیر کونسل کے فنڈ اور پیپلز پارٹی میں دھڑے بندی کا مسئلہ

مظفر آباد (سلیم پروانہ)

آزاد کشمیر کا سیاسی موسم اپنے جوبن پر ہے، حکمران ٹیم اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مو¿قف کے ساتھ سیاسی میدان میں متحرک ہیں، الزامات کی سیاست میں کئی چہروں سے جہاں نقاب اترے ہیں تو اس سے کئی چہروں کے چھینٹے بھی اُڑائے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی آزادکشمیر کی حکومت کو بشمار مالی، انتظامی و سیاسی مسائل کا سامنا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت کو بھی مالی خسارہ ورثہ میں ملا، بجٹ کا مالی خسارہ تو حکومت پاکستان پورا کرتی ہے جبکہ غیرضروری اخراجات عالمی خسارہ میں خطرناک حد تک اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آزادکشمیر حکومت کو 20ارب روپے کے بیل آﺅٹ پیکج کا اعلان کیا تھا۔ کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد حکومت آزادکشمیر 8ارب روپے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جس طرح وفاقی حکومت نے تاخیر کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکج کی رقم اقساط کی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح صورت حکومت آزادکشمیر کا یوم تشکر بھی ٹھنڈے انداز میں منایا گیا جوکہ کارکنوں و عوام کی طرف سے ایک پیغام تھا۔ اقتدار کے حصول کے بے رحم کھیل میں پیپلزپارٹی آزادکشمیر تقسیم ہو چکی ہے، ایک ہی پارٹی کے مختلف سطح کے عہدیدار اور کارکن سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ بیسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم آزادکشمیر پارٹی بچانے اور کارکنوں سمیت عوام کی عزت نفس بحال کرانے کے فلسفہ کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ دارالحکومت سے پارٹی کے سینئر رہنما اور فعال کارکنوں کی اکثریت اُن کی حمایت میں دکھائی دیتی ہے رابطہ مہم کے دوران بھی سابق وزیر خواجہ طارق احمد، سابق صدارتی مشیر سردار تبارک علی، سابق میئر سید نثار الحسن گیلانی سمیت دیگر شخصیات نے حکومت کے مدمقابل اپنی ہی پارٹی کے رہنماﺅں کارکنوں نے کامیاب اجتماعات کا انعقاد کیا ہے۔ ان کا مو¿قف ہے کہ وزیراعظم و صدر جماعت کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔ جن کے لیے متحرک سیاسی شخصیات کی اکثریت کو رام نہیں کرسکی۔ پیپلزپارٹی مظفرآباد کے عہدیداروں و وزیر جنگلات سردار جاوید ایوب نے اخباری کانفرنس میں وضاحت کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے نام پر احتجاج کرنے والوں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے انہیں حکومت اور پارٹی مفادات کے منافی سرگرمیوں کے باعث پارٹی سے الگ کردیا گیا ہے۔ وزراءکرام مطلوب انقلابی، اظہر گیلانی، میاں وحید، ڈپٹی سپیکر شاہین کوثر ڈار دیگر کے ساتھ حکومت مخالف رہنماﺅں کے ہاتھ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ حکمران پارٹی کی عجب یاری ہے کہ جب ناراض خاموش رہیں تو ان کے ساتھی جب اپنے مو¿قف کے ساتھ سامنے آئئیں تو لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں صدر سردار محمد یعقوب خان نے خصوصی طور پر شرکت کی ہے، طویل اجلاس میں مقتدر وزراءکرام نے اپنی ٹیم کیپٹن کی بغص یاہوں پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ مہاجرین کی نشستوں پر منتخب دو ارکان اسمبلی ایم کیو ایم طاہر کھوکھر و سلیم بٹ کا مو¿قف و انداز توجہ کا مرکز بھی بنا رہا۔ انہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا ہے۔ کمیٹی وزراءنے کمزور گرفت، غیرضروری مداخلت، وعدہ خلافی اور رات کے اندھیروں میں کئی ملاقاتوں کو پارٹی و حکومت کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان کا ساری سیاسی صورتحال میں کہنا تھا کہ سیاسی افراتفری سے حکومت غیرمستحکم ہو گئی ہے کہ اس جماعت نے سردار عتیق احمد خان کے مو¿قف کو سیاست میں ذمہ دارانہ کردار قرار دیا ہے، قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر خان نے چیف الیکشن کمشنر پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کونسل کے فنڈز و دیگر وسائل پاکستان کے عام انتخابات میں خرچ کرنے کے اقدام کو روکا جائے، انہوں نے حکمران ٹیم کی لڑائی کو زرگری قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قائد حزب اختلاف نے آزادکشمیر کے امور سے متعلق جو صدر پاکستان کو مکتوب تحریر کہا ہے اس کے نکات کی اہمیت کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن