قومی اسمبلی نے 16 مارچ تک زیرالتواءرکھا تو نئے صوبے کا بل ختم ہو جائیگا : چیئرمین سینٹ
اسلام آباد (عمران مختار+ دی نیشن رپورٹ+ نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) متنازعہ 24ویں آئینی ترمیمی بل 2013ءکی قسمت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ نیر حسین بخاری نے کہا ہے کہ اگر اسے قومی اسمبلی میں 16 مارچ تک زیرالتوا رکھا اور اسے منظور نہ کیا گیا تو اس کی مدت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ آرٹیکل (3)76 کے تحت سینٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں زیر التواءیا قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینٹ میں زیر التوا بل قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ دریں اثناءمتحدہ قومی موومنٹ نے سانحہ عباس ٹاﺅن پر حکومتی بے حسی کے خلاف جمعرات کو سینٹ سے واک آﺅٹ کیا، سنیٹر طاہر مشہدی نے نکتہ اعتراض پر کہا کراچی میں سانحہ عباس ٹاﺅن رونما ہوئے 4 دن گزر گئے، سانحہ رونما ہونے کے بعد بھی حکومت نظر نہیں آئی۔ سانحہ عباس ٹاﺅن کے متاثرین بے یارومددگار پڑے ہیں حکومت نے مدد نہیں کی۔ لوگوں کو ریسکیو نہیں کیا گیا، متاثرین کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، غریبوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے، کوئی درندہ تاحال کیوں نہیں پکڑا جا سکا۔ حکومت نے واقعہ سے متعلق غلط رپورٹ پیش کی کہ 5 ماہ قبل گرفتار ملزم میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ واقعہ پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی ہے، کوئی ادارہ متاثرین کے آنسو پونجھنے کے لئے بھی نہیں پہنچا۔ اس کے بعد متحدہ کے ارکان ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے۔ نئے صوبے سے متعلق 24ویں آئینی ترمیم کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا، چیئرمین سینٹ نیئر بخاری نے کہا کہ آرٹیکل 76(3) کے تحت جو بل قومی اسمبلی میں پینڈنگ ہو یا پاس کیا ہو سینٹ میں پینڈنگ ہوتو اس دوران اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔ سینیٹر محسن لغاری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ دنیا کے ہر پارلیمان میں مجوزہ آئینی ترمیم پر شق وار بحث کی جاتی ہے لیکن ایک روز قبل ہم نے نئے صوبے سے متعلق 24ویں آئینی ترمیم کو عجلس میں پاس کر دیا۔ کسی بھی آئینی ترمیم کو عجلت میں منظور نہیں کیا جانا چاہئے اس طرح جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ چیف وہیپ اسلام الدین شیخ نے کہا کہ قومی اسمبلی کی جانب سے پاس کردہ قانون سازی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد ہذف نہیں ہوسکتی تاہم چیئرمین سینٹ نے بتایا کہ آرٹیکل 78(3) واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل ہوجائے گی اور وہ تمام قانونی کارروائی جو اسمبلی سے پاس ہوچکی ہوگی اور سینٹ سے منظور نہیں ہو چکی ہو گی وہ خود بخود ہذف ہو چکی ہو گی اور نئی حکومت آکر نئی کارروائی کرے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ غازی بروتھا نہر سے پانی بذریعہ پائپ لائن اسلام آباد اور راولپنڈی فراہم کیا جارہا ہے جو کہ صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے چیئرمین سینٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ غازی بروتھا نہر سے خیبر پی کے کے حصے کے پانی کی چوری کو رکوائیں تاہم چیئرمین سینٹ نے انہیں ہدایت کی ہے کہ اگر وہ اس معاملے پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو قواعد کے مطابق تحریک پیش کریں یا توجہ دلاﺅ نوٹس جمع کرائیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ انتخابی قوانین سے متعلق خصوصی کمیٹی نے بہت محنت اور دلجمعی سے کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی قوانین کے حوالے سے قانون سازی کو جلد سے جلد حتمی شکل دینی چاہئے تاکہ شکوک و شبہات دور ہوسکیں۔ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ میر ہزار خان بجارانی نے کہا ہے کہ موبائل فون کمپنیاں صارفین سے اضافی چارجز وصول کرتی ہیں‘ یہ معاملہ کمپنیوں کے حکام کے ساتھ اٹھایا جائے گا‘ صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں گے۔ پی ٹی اے نے پری پیڈ صارفین پر پانچ فیصد سروس فیس عائد کرنے کی منظوری دی تاہم دو فیصد مینٹی نینس چارجز کی منظوری نہیں دی گئی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کے اعتراض پر وقفہ سوالات کے خاتمے کے بعد وزارت خزانہ سے متعلق سوالات نہ لئے جا سکے۔ چیئرمین نے وفاقی وزیر خزانہ سلیم ایچ مانڈوی والا کی درخواست پر وزارت خزانہ سے متعلق سوالات کچھ دیر کے لئے موخر کئے۔ وفاقی وزیر کی آمد میں تاخیر کے بعد وقفہ سوالات ختم کر دیا گیا۔ انضمامی ریاستوں کے حاکموں/ ذاتی اخراجات اور مراعات کا خاتمہ (ترمیمی) بل 2013ءپر قائمہ کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کا معاملہ موخر کردیا گیا۔ ساڑھے تین ارب روپے کے ترقیاتی گرانٹس وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے انتخابی حلقے کی جانب بھیجے جانے کے معاملے پر حکومتی اتحادی جماعتوں کے ارکان کے مابین گرماگرمی ہوگئی اور اے این پی کے رکن زاہد خان نے احتجاجاً اس مسئلے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔
سینٹ واک آﺅٹ