مان لینا جاننے سے بہتر ہے
چند دن پہلے نوائے وقت میں ایک نادر اور نایاب تصویر دیکھی ہے۔ بے نظیر بھٹو پیر آف قمبر سید حاجن شاہ کے ساتھ موجود ہیں۔ پیر صاحب کرسی پر بیٹھے ہیں اور بی بی ان کے قدموں میں زمین پر بیٹھی ہیں۔ مطمئن مسرور اور محبوب چہرے کے ساتھ ان کی آنکھوں میں عقیدت اور اعتماد کی چمک تھی جو پیروں کے پاس اکثر جانے والی عورتوں کے پاس نہیں ہوتی۔ بڑی فیشن ایبل ایڈوانس ماڈرن اور آزاد خیال خواتین بھی پیروں فقیروں کو ماننے والی ہوتی ہیں۔ مفادات اور اغراض کس کے دل میں نہیں ہوتیں۔ جو ماننے والے نہیں ہوتے۔ ان کے دل میں گندی خواہشوں نے ہڑبونگ مچا رکھی ہوتی ہے۔ مفکر اور ملحد آدمی کے دل میں بھی کسی نہ کسی کو ماننے کی لہر چھپی ہوتی ہے۔ اس کے بغیر آدمی موج میں نہیں آ سکتا۔ ان دیکھے کا تصور ہی آدمی کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ جاننے کی خواہش ماننے کے لئے ہو تو ٹھیک ہے۔ ورنہ شک تو بے یقینی سے بھی غلیظ ہوتا ہے۔
میں نجانے کیا کچھ لکھے جا رہا ہوں۔ بے نظیر بھٹو کے دل میں کچھ تھا۔ نجانے کیا تھا؟ بہرحال کچھ نہ کچھ تھا۔ آدمی کے پاس کچھ ہوتا ہے اور اسے بھی خبر نہیں ہوتی کہ میرے پاس کیا ہے۔ پیر آف قمبر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ان کا پوتا فوت ہو گیا۔ پیر صاحب زخمی ہونے کے بعد فوت ہو گئے۔ بی بی زندہ ہوتیں تو پیر صاحب کی تعزیت کے لئے جاتیں۔ یہ تصویر مجھے بہت اچھی لگی۔ پیر صاحب کے ساتھ یہ حادثہ نہ ہوتا تو یہ تصویر شائع نہ ہوتی۔ ان کے پاس نجانے کیا تھا کہ بی بی ان کے پاس گئیں اور بڑے احترام کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے حکمرانوں، جرنیلوں، سیاستدانوں اور امیر کبیر لوگوں میں پیروں فقیروں سے عقیدت کے معاملات عام ہیں اور خاص بھی ہیں۔
بابا عرفان الحق جناب عبداللہ بھٹی بابا یحییٰ خان، سرفراز شاہ، پروفیسر رفیق اختر کے علاوہ بھی کئی غیر معروف آدمی ہیں۔ جن کے پاس بڑے بڑے مناصب والے آدمی آتے ہیں۔ میں نے قبلہ واصف علی واصف کے پاس محمد حنیف رامے، اشفاق احمد اور کشور ناہید کو دیکھا۔ اینکر مین رفیق احمد نے اشفاق احمد سے پوچھا کہ بہت لوگ آپ سے متاثر ہیں۔ آپ بھی کسی سے متاثر ہیں۔ اشفاق صاحب نے کہا کہ میں بابا عرفان الحق سے متاثر ہوں۔ وہ بابا نور والے کا بھی بہت ذکر کرتے تھے۔ عبداللہ بھٹی نے بہت متاثر کیا۔ ایک عام آدمی میں کوئی خاص آدمی چھپا بیٹھا ہے۔ مجھے کبھی موقع ملتا تو میں پیر صاحب آف قمبر سے ملتا اور ان سے پوچھتا کہ بی بی کی کوئی بات بتاﺅ۔ یہ بھی بتاﺅ کہ بی بی کا قاتل کون ہے۔ کوئی پیر موت سے اور حادثے سے کسی کو نہیں بچا سکتا۔ گولی کو تعویذ نہیں روک سکتے۔ دو دفعہ وزیراعظم بننے والی خاتون جس انسان کے قدموں میں بیٹھ جائے وہ کیا آدمی ہو گا مگر ان پر قاتلانہ حملہ کیوں ہوا؟ بی بی ہوتی تو دہشت گرد کا پتہ چلا لیتی۔
فقیر امیر کبیر ہو گئے ہیں مگر ایک غریب شریف آدمی ان کے اندر کہیں بیٹھا ہوتا ہے۔ جس طرح کھرب پتی بے نظیر بھٹو پیر صاحب آف قمبر کے پاس زمین پر بیٹھی ہوئی تھی۔ بی بی کے پتی (شوہر) صدر زرداری بھی کھرب پتی ہیں۔ کھربوں روپے جس کے پاس ہوں اسے پتہ نہیں چلتا کہ کھربوں روپے کسی کے کسی کام نہیں آتے۔ دولت کچھ اور چیز ہے دل کی دولت کچھ اور چیز ہے۔ یہ دونوں کم کم کسی کے پاس اکٹھی ہوتی ہیں؟ سرفراز شاہ کہتے ہیں کہ امیر کے مقابلے فقیر ہوتا ہے غریب نہیں ہوتا۔
میں بڑے بابوں سے ملا ہوں۔ بڑے سفر کئے ہیں۔ بھارت کے سفر میں اتفاقاً ریل گاڑی میں ایک خوبصورت بوڑھے نے مجھے اپنی باتوں میں سمیٹے رکھا۔ نورانی چہرہ اور روحانی باتیں۔ اس کے جانے کے بعد بھی پتہ نہ چلا کہ وہ ہندو تھا کہ مسلمان تھا۔ مجھے ہمت ہی نہ ہوئی کہ پوچھ لوں۔ اس نے کبھی مجھے دم بخود کیا کبھی مبہوت کر دیا۔ وہ جب ویرانی حیرانی تنہائی اور گہرائی میں ڈوبے ہوئے ریلوے سٹیشن پر اتر گیا۔ میں اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا اداس ہو گیا۔ اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ نجانے اب اس شاندار اور پُراسرار بوڑھے سے ملاقات ہو گی؟ یقین کریں کہ وہ روشنی کے دائرے کی طرح گھوما جھوما اور میری طرف آیا۔ ایک سنسنی خیز لہر میرے وجود میں وجد کرنے لگی۔ وہ میرے پاس آیا اور ایک دوستانہ اجنبیت کے ساتھ کہا۔ یاد رہ جانے والی ملاقات ہو تو پھر دوسری ملاقات ضرور ہوتی ہے اور ملاقات کی کئی قسمیں ہیں۔ میری حیرتوں کو غمزدہ چھوڑ کر وہ غائب ہو گیا۔ اُسے میرے دل میں پیدا ہونے والے خیال کا کیسے پتہ چلا؟ یہ میں کس سے پوچھتا؟ بے نظیر بھٹو جیسی عالمی مقام کی عورت ایک پیر صاحب کے قدموں میں کیوں بیٹھ گئی۔ میں اس سے کیسے پوچھوں کس سے پوچھوں؟؟
صدر زرداری کے پاس ایسے لوگ رہتے ہیں جن کی بات وہ دل سے سنتے ہیں۔ عمران بھی بہت سے بابوں سے ملتا ہے۔ نوازشریف نے بھی بابا دھنکا سے سوٹیاں کھائیں۔ اس سے بے نظیر بھٹو نے بھی سوٹیاں کھائی تھیں۔ برادرم نوید خان نے بتایا کہ وہ مانسہرہ کے پاس ایک پتھر پر بہت عرصہ بیٹھا رہا۔ گرمی سردی بارش آندھی 33 برس تک گزار دی۔ اس سے پہلے پنڈی میں ماشکی تھا۔ ملنے کے لئے آنے والے کسی سے کبھی ہاتھ نہ ملایا۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کی روحانی وراثت خاندان والوں نے جائیداد کی طرح استعمال نہ کی۔ بابا دھنکا کی گدی پر کوئی نہیں بیٹھا بہت بڑے بڑے سجادہ نشینوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا یہ پیران تسمہ پا ہیں جو حکومتوں وزارتوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی شاہ محمود قریشی مخدوم امین فہیم وغیرہ کے پاس کچھ نہیں ہے۔ موروثی سیاست بُری بلا ہے۔ تو موروثی روحانیت بھی ایک دھوکہ ہے۔ لوگوں نے اس دھوکے کو دھرم بنا لیا ہے۔ جعلی پیروں کی ہٹ دھرمی بھی ایمان کی طرح بن گئی ہے۔
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
کوے کائیں کائیں کرتے ہیں تو سیاسی مخدوموں کے بیانات کیا ہیں؟ موروثیت میں طاقت اور اہلیت ہو تو یہ ایک قابل قبول تاریخ ہے۔ آخر پیر پگارا کے پاس کیا تھا کہ ہر سیاستدان اور حکمران ان کے پاس حاضر ہوتا تھا۔ میں موجودہ پیر صاحب پگارا سے نہیں ملا۔ ان کے والد محترم کے پاس بہت کچھ تھا۔ موجودہ پیر پگارا بھی مرکز سیاست و حکومت ہیں۔ ان کا ایک جملہ قابل غور ہے۔ ”صدر زرداری کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟“۔