منصفانہ انتخابات کے لئے امن ضروری ہے: جسٹس خلجی‘ کراچی میں طاقت کی رسہ کشی ہے فرقہ واریت نہیں : چیف جسٹس
کراچی (نوائے وقت نیوز + اے ایف پی + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سانحہ عباس ٹاﺅن سے متعلق حکومتی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور 3 دن میں نئی رپورٹ تیار کر کے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں 15 سے 20 انسداد دہشت گردی کی مزید عدالتیں قائم کی جائیں، انسداد دہشت گردی عدالت سے بری ملزموں کے مقدمات کا جائزہ لیا جائے، ناقص تفتیش کرنے والے افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے، اہل اور دیانتدار افسروں پر مشتمل ٹیم بنائی جائے جو تین دن میں نئی رپورٹ تیار کر کے کراچی رجسٹری میں جمع کرائے، سندھ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے، متاثرین کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں، سانحہ عباس ٹاﺅن کے متاثرین کو سرکاری سطح پر رہائش فراہم کی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ مظفر اویس ٹپی کو کس کے کہنے پر 8 موبائلز اور 50 پولیس اہلکار دئیے؟ کراچی پولیس پر کچھ لوگوں کا قبضہ ہے، کراچی میں فرقہ وارانہ فساد نہیں طاقت کی رسہ کشی ہے، ہمارا المیہ ہے، اچھے افسران کو ہٹا دیا جاتا ہے، ہم وزیر اعلیٰ کا احترام کرتے ہیں مگر وہ کچھ جانتے ہی نہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر گھر گھر تلاشی ہو جاتی تو آج کراچی کے حالات بہتر ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت جن کے خلاف ایکشن لیتی ہے حکومت اسے تمغے دینی ہے، بتائیں حکومت نے کس کو پروموٹ کرنا ہے، اس کے خلاف آرڈر نکال لیتے ہیں، اداروں میں بے بسی کی صورت نظر آ رہی ہے، ججز نے حکومتی بیانات پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ 50 افراد کی ہلاکت کو انتظامیہ کی نااہلی نہ کہیں تو کیا کہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق کراچی بدامنی عملدرآمد کیس میں سانحہ عباس ٹاﺅن ازخود نوٹس کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران سندھ حکومت نے م¶قف اختیار کیا کہ سانحہ عباس ٹاﺅن کے متاثرین کو معاوضہ دے چکے ہیں، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بتایا گیا ہے کہ متاثرین کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ رینجرز، آئی بی اور سپیشل برانچ نے رپورٹ جمع کرائی۔ چیف جسٹس نے ڈی جی رینجرز سے کہا کہ پولیس کا حال آپ دیکھ چکے ہیں۔ امن و امان کا قیام آپکی ذمہ داری ہے۔ رینجرز کی جمع کرائی گئی رپورٹ سے آپکی جان نہیں چھوٹ سکتی۔ چیف سیکرٹری سے پولیس افسروں کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ مانگی تھی، کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا اجمل پہاڑی نے 100 قتل کئے اور ضمانت پر رہا ہو گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب عدالت میں ثبوت نہیں لائے جائیں گے تو ملزم لازمی چھوٹ جائینگے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں جو اقدامات کئے گئے اس کے بعد کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ کچھ پولیس افسران نے پورے محکمے کو یرغمال بنالیا ہے۔ ہمیں جو رپورٹ دی گئی تھی اس کے پیش نظر ہم نے فیصلہ لکھا مگر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اس معاملے پر فیصلہ 7 دن میں کر دینگے، ہم کہتے ہیں اگر اجمل پہاڑی پر 100 کےس کئے ہیں تو 100 ثبوت لائیں ہم سو جج بنا دینگے۔ آپ نے اس پر 100 کیس بنا ڈالے، ثابت کرنا آپ کی ذمہ داری تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا آپ نے دھماکے کے بعد کیا کیا؟ ڈی جی رینجرز نے جواب دیا دھماکے کے بعد ملزموں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے گئے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا آپ کا ارادہ ہی نہیں تو امن و امان کیسے ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مقاصد کو پورا کرنے کیلئے پرتشدد واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے۔ کراچی میں طاقت کی رسہ کشی ہے جس کو فرقہ واریت کا نام دیا جا رہا ہے۔ فرقہ واریت کے مسائل کس نے حل کرنے ہیں، عدالت نے یا حکومت نے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا آپ کیوںآ ئے ہیں، ہم نے آپ سے نہیں سیکرٹری داخلہ سندھ سے جواب مانگا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا اگر عوام کو کوئی تحفظ نہیں دیگا تو یہ کام بھی عدالتوں کو کرنا پڑیگا۔ ہم نے سیکرٹری داخلہ کو نوٹس بھیجا تھا کہ رپورٹ لائیں۔ چیف جسٹس نے سابق آئی جی سندھ فیاض لغاری اور ڈی جی رینجرز کو چیمبر میں طلب کیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کو نوٹس کرنے کی ضرورت نہیں، آپ عدالت کا احترام ہی نہیں کرتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا سانحہ عباس ٹاﺅن میں آئی بی کی رپورٹ پر کیا عملدرآمد کیا گیا؟ ڈی جی آئی بی نے کہا رپورٹس ڈی جی رینجرز اور سابق آئی جی سندھ کو زبانی طور پر دی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ دو گھنٹوں میں بازار بند ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر کیمرے لگا دیئے جاتے تو سب کچھ واضح ہوجاتا۔ کلفٹن واقعہ میں خاتون کے اغوا کی ویڈیو نجی ٹی وی چینل سامنے لا سکتا ہے تو پولیس کیوں نہیں؟ کمشنر کراچی ہاشم زیدی نے عدالت کو بتایا کہ سانحہ عباس ٹاﺅن کے متاثرین کیلئے 118 چیک تیار ہیں، متاثرین کو پہنچا دئیے جائیں گے۔ ایس ایس پی نیاز کھوسو نے عدالت میں بیان دیا کہ آپ حکم دیں ہم آپ کو بتائینگے کہ گڑبڑ کہاں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم حکم کیوں دیں، حکومت کیا کر رہی ہے؟ نیاز کھوسو نے کہا عدالت کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔ تھانوں میں 20 ہزار نفری ہے، 2 کروڑ آبادی کیلئے ناکافی ہے، عدالت ہمیں حکم دیدے تو ہمیں نفری مل سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سابق آئی جی اور ڈی جی رینجرز سے پوچھیں گے، معلومات تھیں تو کیا کیا؟ آئی جی سندھ نے کہا تھانوں کی نفری پوری ہوجائے تو معاملہ بہتر ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا آپ جب سے آئی جی بنے آپ نے اپنے ہاﺅس کو اِن آرڈر کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے؟ قائم مقام آئی جی غلام شبیر شیخ نے کہا مجھے ٹی وی پر پتہ چلا کہ مجھے آئی جی کا چارج دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ہاﺅس اِن آرڈر کروں گا تو تبدیلی نظر آئیگی۔ چاروں صوبوں میں رہا، سمجھوتہ نہیں کیا اس لئے معطل بھی رہا۔ چیف جسٹس نے کہا ہمارا المیہ ہے اچھے افسروں کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ قائم مقام آئی جی نے کہا آپ حکم جاری کریں کہ پولیس میں سیاسی بنیاد پر تقرریاں نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اب تک شہر میں سوئپنگ کر چکے ہوتے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا ان حالات میں شفاف انتخابات کیسے ممکن ہیں؟ وکیل انور منصور نے کہا کہ مانتا ہوں، یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا آپ بھی اس شہر میں رہتے ہیں، کیا آپ کے بچے یہاں محفوظ ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 50 کے بعد 5 ہزار، 5 لاکھ یا 5 کروڑ لوگ مر جائیں گے، پھر آپ مانیں گے۔ آپکی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ آرٹیکل 9 شہریوں کو حقِ زندگی فراہم کرتا ہے لیکن اس سے وہ محروم ہیں۔ وکیل سندھ انور منصور نے کہا کہ دہشت گردی کی لپیٹ میں پورا ملک ہے، کراچی اس کا حصہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا سیاسی قائدین روز چیختے ہیں، شہر میں امن و امان کیئے اقدامات کئے جائینگے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ حالات کو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ بلوچستان کا گورنر لوگوں کے درمیان گیا اس لئے وہ آپ سے بہتر ہے۔ آئی بی کی رپورٹ جامع تھی، کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ اے ایف پی کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ منصفانہ انتخابات کے لئے امن کا قیام بہت ضروری ہے۔ حکومت اور سکیورٹی فورسز تشدد آمیز واقعات روکنے میں ناکام رہے۔ انتخابات منصفانہ اور پرامن ہونے چاہئیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر آپ کا خاندان خوف میں مبتلا رہتا ہے تو پھر پرامن طور پر منصفانہ انتخابات کس طرح سے ممکن ہیں جو کہ ایک آئینی ضرورت ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل محمود اختر نقوی نے بتایا کہ صدر کے منہ بولے بھائی ٹپی کے پاس آٹھ موبائلز اور 50 اہلکار حفاظت پر ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ یہ ٹپی کون ہے؟ کس پوسٹ پر ہے؟ محمود اختر نقوی نے کہا کہ ٹپی کا کوئی کام نہیں وہ قیمتی زمینوں پر قبضے کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹپی نے سکیورٹی کے لئے محکمہ داخلہ یا پولیس کو کوئی درخواست دی تھی؟ ڈی آئی جی نے بتایا کہ ٹپی کو کس کے کہنے پر آٹھ موبائلز اور 50 پولیس اہلکار دئیے گئے ہیں چیک کر کے بتا¶ں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سانحہ عباس ٹا¶ن پر جے آئی ٹی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شہر میں آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں آئی پیز کی حفاظت کے لئے مختص ہیں۔ اویس مظفر ٹپی کی حفاظت کرنے والے 50 اہلکاروں کا خرچ ان سے لیا جانا چاہئے۔ ایک فرد کو 50، 50 اہلکار دیں گے تو عوام کو کون تحفظ دے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں ہر بندہ تھریٹ کا شکار ہے، آپ کس طرح فرق کرتے ہیں کہ کسے سکیورٹی دی جائے اور کسے نہیں، ہمارے نزدیک کوئی وی آئی پی نہیں ہر شخص کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ ٹپی کو 50 اہلکار دئیے گئے اسے کیا تھریٹ ہے، عدالت کو بتایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں یہاں پولیسنگ کرانی ہے جتنے وزرا اور عہدےدار ہیں ان کے لئے میرا خیال ہے دو ہزار پولیس اہلکار کافی ہیں، کل 14 افراد مارے گئے ان کی ایف آئی آر عدالت میں پیش کی جائے۔ جب سے ہم آئے ہیں صرف مایوسی کی باتیں سن رہے ہیں۔ اے ٹی سی عدالتوں میں بندر والے پنجرے میں انسانوں کو رکھا جاتا ہے جو تذلیل ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں باورچی نما کمروں میں قائم ہیں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں متبادل جگہوں پر منتقل کی جائیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں باقاعدہ لاک اپ تعمیر کیا جائے۔ شام کو ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر کہتے ہیں، عدالتیں ملزموں کو چھڑتی ہیں، ہم کیا کریں بغیر ثبوت کے سزائیں دینے کا کوئی قانون ہے تو بتائیں کل سے سزائیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے انچارج پراسیکیوشن سے کہا کہ ولی بابر تیل کیس کے ملزم بری کر دئیے۔ اس قتل کیس کے 6 گواہوں کو مار دیا گیا۔ کراچی میں ہر بندہ رو رہا ہے، ہسپتال بھرے پڑے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالتوں میں 631 کیسز زیر التوا ہیں، اگر 631 کیسز میں سزائیں ہو جاتیں تو حالات مختلف ہوتے، سماعت 21 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ سانحہ عباس ٹا¶ن پر حکومتی رپورٹ اطمینان بخش نہیں، وفاقی سیکرٹری داخلہ کی طرف سے کوئی عدالت میں پیش نہیں ہوا، تین دن میں نئی رپورٹ تیار کر کے کراچی رجسٹری میں جمع کرائیں، سیکرٹری دفاع، ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی کو 6 مارچ کا حکم پہنچایا گیا لیکن حکم کے باوجود رپورٹ جمع نہیں کرائی۔ پولیس نے جرائم روکنے کی کوشش نہیں کی، ناقص تفتیش کرنے والے افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ آئی جی ایماندار، قابل اور محنتی افسروں کی ٹیم بنائیں، 11 کنٹریکٹ افسروں کے خلاف کارروائی کر کے رپورٹ پیش کی جائے، عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل کو حکم دیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے بری ملزموں کے کیسز کا جائزہ لیں جہاں سے سو فیصد ملزم بری ہو جاتے ہیں۔ سندھ میں مزید 15 سے 20 انسداد دہشت گردی عدالتیں قائم کی جائیں۔ سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف اطلاعات دینے کے ذمہ دار ہیں، افسوسناک عمل یہ ہے کہ کسی افسر کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے سانحہ عباس ٹا¶ن کے متاثرین کو سرکاری سطح پر رہائش فراہم کرنے کا حکم بھی دیا۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ خکومت سندھ شہریوں کو حق زندگی فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی بدامنی کیس میں سیکرٹری دفاع اور داخلہ کو نوٹسز جاری کر دئیے ہیں۔ چیف جسٹس نے ملٹری نٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کی رپورٹ 3 دن میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔