اچھی حکمرانی، وسائل کی منصفانہ تقسیم سے نئے صوبوں کا شوشہ ختم کیا جا سکتا ہے
اسلام آباد (جاوید صدیق سے) حکومت نے بہاولپور جنوبی پنجاب کے نام سے پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے لئے سینٹ میں بل منظور کرا لیا ہے۔ پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور اے این پی پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم کرنے کے اپنے منصوبہ کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اصولی طور پر تو مسلم لیگ (ن) بھی انتظامی سہولت کی خاطر جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کی حمایت میں ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) کا مﺅقف یہ ہے کہ صوبہ بنانے کے لئے عوام کی رائے اور قومی اتفاق رائے کا ہونا ضروری ہے۔ محض کسی سیاسی مصلحت کے تحت صوبہ بنانے کی روش ملکی مفاد میں نہیں ہو گی، جہاں تک بہاولپور کو صوبہ بنانے کا سوال ہے تو بہاول پور قیام پاکستان سے قبل ایک ریاست تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بہاولپور کو انتظامی سہولت کے لئے ایک الگ انتظامیہ دی گئی لیکن اسے صوبہ کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ بہاولپور صرف تین اضلاع پر مشتمل ہے۔ تین اضلاع پر مشتمل صوبہ بن گیا تو اس کو چلانا بہت محال ہوگا۔ کیا یہ نیا صوبہ اتنا ریونیو اکٹھا کر سکے گا کہ وہ انتظامی اخراجات پورے کر سکے اور وفاقی کنسالیڈٹیڈ فنڈ میں اپنا حصہ ڈال سکے؟ دوسری طرف جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی تحریک ایک عرصہ سے سرائیکستان کے نام سے چلائی جاتی رہی ہے۔ پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی نے پنجاب کو دولخت کرنے کے لئے بل منظور کرا لیا ہے لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ بنائے جانے کے بعد وہاں کے لوگ خوشحال ہوں گے اور ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ لوگوں کو اچھی گورننس میسر ہو جانے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو تو نئے صوبے بنانے کا مطالبہ خودبخود دم توڑ دے گا۔ ویسے بھی موجودہ حکمران جماعت کے پاس قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت نہیں ہے اس لئے وہ قومی اسمبلی سے بہاولپور جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کا بل منظور نہیں کرا سکے گی؟ البتہ آنے والے انتخابات میں وہ بہاولپور جنوبی پنجاب کا کارڈ استعمال کرکے جنوبی پنجاب سے ووٹ حاصل کرے گی۔ فی الحال حکمران اتحاد کا یہی مقصد نظر آتا ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والے حلقوں کو تشویش اس بات پر ہے کہ نئے صوبے بنانے کی یہ روش کہیں پاکستان کو Balkaniseنہ کر دے۔ پاکستان میں زبان اور نسل کی بنیاد پر الگ صوبہ بنانے کے لئے کوششیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ پختونستان، گریٹر بلوچستان، سرائیکستان اور جناح پور بنانے کی کوششیں ہو چکی ہیں جو بارآور ثابت نہیں ہو سکتیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں جن میں بھارت، امریکہ اور چین شامل ہیں۔ پنجاب سے بھی بڑے صوبے موجود ہیں لیکن وہاں حسن انتظام، انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے عوام کو مطمئن رکھا گیا ہے۔ اچھی حکمرانی رول آف لاءاور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے نئے صوبے بنانے کے شوشوں کوختم کیا جا سکتا ہے۔ لسانی اور نسلی بنیادوں پر صوبے بنانا ملکی استحکام اور وحدت کے لئے اچھا شگون نہیں۔ یہ روایت چل پڑی تو بلوچستان میں بھی پختون اور بلوچ قومیت کی بنیاد پر الگ صوبے بنانے کی بات چھڑ سکتی ہے۔ ہزارہ اور پوٹھوہار کے صوبے بنانے کے لئے تو پہلے ہی کوششیں جاری ہیں۔