ہفتہ ‘ 26 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 9 مارچ2013 ئ
” پنجاب سے بدلہ لیا،اب پاکستان سے بدلہ لیں گے“ یہ شریف برادران کا منشور ہے:پرویز الٰہی
اگر پنجاب جیسا ہی بدلہ لیا تو پھر پورے ملک کے وارے نیارے ہوجائیں گے،میٹرو بسیں دوڑنا شروع ہوجائیں گی،بڑے بڑے شہروں میں انڈر پاس بن جائینگے ،اجالا پروگرام پورے ملک میں شروع ہوجائے گا۔طلبا و طالبات کو ہر جگہ لیپ ٹاپ ملنا شروع ہوجائیں گے پھر دیکھتے ہی دیکھتے....ع
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے
والی کیفیت ہوگی،چوہدری صاحب یہ بدلے والا منشور تو سب کے دلوں کو بھا جائیگا جس طرح 1122 کا پودا جتنا تناور ہوگا آپ کا شملہ اتنا ہی اونچا ہوگا کیونکہ اس کے بانی آپ ہیں سڑکوں کے جال ہر جگہ بچھا کر شہنشائے تعمیرات آپ کہلوائے کچھ لوگ حاجیوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالکر اور کچھ رینٹل پاور میں کمشن کھا کر ڈاکو بنے۔ کوئی پانچ سال میں اچھا اور برا نام چھوڑ کر جائیگا۔چھوٹے میاں نے تو لاہور کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا کلمہ چوک انڈرپاس صرف 82 دنوں میں مکمل ہوگیا ،یوں لگتا ہے جیسے حضرت سلمانؑ کے دور والا جن انکے پاس آچکا ہے جو موسم کی انگڑائی لینے سے قبل ہی کام پورا کردیتا ہے،چوہدری صاحب آپ ذرا نظر رکھیں شریف برادران منشور بدلنے نہ پائیں یہ منشور تو قدرے ٹھیک ہے انکے منشور میں قید تنہائی کا سناٹا بھی ہے،آنسوﺅں کی مالا بھی،آہوں کا ہالا بھی،پچھلے پہر کی یادیں،ہجر کی راتیں اور وصل کی باتیں بھی ہیں آپ بھی منشور کا اعلان کریں تاکہ عوام خود ہی موازنہ کرلیں۔
٭....٭....٭....٭
نوائے وقت کے سرورق پر بنگلہ دیش میں اپوزیشن رہنما شمیم اختر کی تصویر چھپی ہے جس میں شمیم اختر گرفتاری کے بعد پولیس وین سے گرکر سڑک پر زخمی پڑی ہیں۔
خواتین کا دن گزشتہ روز عالمی سطح پر منایا گیا لیکن ڈھاکہ کی سڑک پر گری پڑی شمیم اختر انسانی حقوق کی تنظیموں پر بنت حوا کی تذلیل کا ایک زور دار تھپڑ رسید کر رہی ہے۔بنگالی پولیس انسانیت سے اس قدر عاری ہوچکی ہے کہ وہ خواتین کو سڑکوںپر پھینک کرحسینہ واجد کو خوش کر رہی ہے۔حسینہ واجد خود صنف نازک ہیں انہیں پولیس کی اس ہٹ دھرمی کا نوٹس لیناچاہئے۔شمیم اختر کی تصویر دیکھ کر یوں محسوس ہورہا ہے جیسے بنگلہ دیش میں بنت حوا کی آبرو کا جنازہ نکل گیا ہے۔تمام نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں گونگی ہوچکی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اندھوں کی انجمن میں گونگے اور بہرے بیٹھے ہوئے ہیں اگر ایسا معاملہ خود حسینہ واجد کے ساتھ پیش آجاتا تو یکدم صور اسرافیل کا انداز لیے امریکہ بہادر اور بھارت چیخ اٹھتا آجکل تو بنگلہ دیش میں یوں کیفیت نظر آرہی ہے جیسے ....ع
” زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ہیں“
آج بنگال میں مکتب مذبح خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور مجیب الرحمن کا ہیولہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
٭....٭....٭....٭
واسا ملازمین کا چوتھے روز بھی دھرناجاری۔
15سو ملازمین اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے مستقل ہونے کی صدا لگا رہے ہیں،خادم پنجاب نے گزشتہ دنوں ایک لاکھ ملازمین کو پکا کیا لیکن واسا کے ڈیلی ویجز ملازمین کی قسمت پھربھی سوئی رہی، شاید بیچارے اپنی افلاس کا نقشہ پوری دیانتداری سے پیش نہیں کرسکے یا کسی دیوتا نے اس طرف نظر کرم ہی نہیں کی۔ 15 سو افراد کا قافلہ نیم جاں اپنے گریبان چاک کرکے چار روز سے قسمت کی دیوی کو صدائیں لگا رہا ہے‘ انکی نگاہیں ٹی وی سکرینوں پر جمی ہوئی ہیں کہ شاید خادم پنجاب انہیں بھی مستقل ملازم کا پروانہ تھما دیں۔ واسا ملازمین یوں گویا ہورہے ہیں....
میں تیرے پاس رہا فاصلے پہ رہ کر بھی
تو مگر دور رہا ہم رکا ب ہوتے ہوئے
غریب ملازمین کے گھروں میں خوشیاں بانٹنے اور چولہے چلتے رہنے کیلئے میاں صاحب مٹھائی اور گیس کی ضرورت نہیں آپ انہیں مستقل کردیں وہ لکڑیوں پر بھی گزارہ کرلیں گے۔
٭....٭....٭....٭
بھائی کا مستقبل سنوارنے والی بہن گرفتار، اسلامیہ کالج کی لیکچرار قتل۔
بہن بھائی کا مستقبل سنوارتے سنوارتے حوالات میں پہنچ گئی،بھائی کی جگہ پر بیٹھ کر کیمسٹری کا پرچہ دینے والی اقراءکے ہاتھوں نے نسوانیت کا پردہ اٹھادیا اور یوں وہ گھر کی بجائے تھانے پہنچ گئی،دوسری طرف ٹیچر خاتون کو قتل کر دیا گیا اساتذہ کا مقام معاشرے میںاگر یہی ہوگا تو پھر تعلیم کا ستیا ناس ہونے میں دیر نہیں لگے گی حفظ کے اساتذہ کے سامنے آج بھی بات کرتے ہوئے حلق خشک ہوجاتا ہے کیونکہ تعلیم حاصل کرنے کا پہلا زینہ ادب ہے اگر ادب و احترام ہوگا تو اللہ کا نور آپکے سینے میں محفوظ ہوسکے گا ورنہ در در کی خاک چھاننے کے باوجود علم کا ذرہ بھی حاصل نہیں کرسکو گے۔اساتذہ طلبا کو سب سے پہلے ادب کا سبق پڑھائیں پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔
٭....٭....٭....٭
29 دن میں 208 ارب روپے قرض!
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
جیسے اسمبلی ختم ہونے کے دن قریب آ رہے ہیں لوٹ مار کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ 208 ارب روپے کا مطلب کہ ہر روز 7 ارب روپے قرض لیا جا رہا ہے، آنیوالی حکومت کیسے چل سکے گی۔ بادشاہ مزاج حکمران اپنے اللوں تللوں کو کم کر رہے ہیں نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے۔
روٹی کپڑا مکان عوام کی پہنچ سے پہلے ہی دور ہو چکا ہے۔ موسم نے انگڑائی لی ہے ساتھ ہی بجلی غائب ہو گئی ہے جبکہ بل فیول چارجز کے ساتھ آ رہے ہیں۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اپنی عیاشیوں کو بند کریں اور قوم پر رحم کھائیں۔ اس وقت سیاستدانوں کی صورتحال اکبر کے اس شعر جیسی ہو چکی ہے ....
مذہب نے پکارا اے اکبر اللہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
یاروں نے کہا یہ قول غلط ”کرپشن“ نہیں تو کچھ بھی نہیں
اسی بنا پر آخری دنوں میں ہر کوئی دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔