حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکیمانہ اسلوب
اےک دن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علےہ وسلم تشرےف فرماتھے کہ اےک شخص دور دراز کا سفر طے کرکے آپ کی خدمتِ اقدس مےں حاضر ہوا۔ اسکا علاقہ شدےد قحط کا شکار ہوچکا تھا۔ حضور اکرم ﷺ کی سخاوت کا شہرہ سنا توآپ کے پا س پہنچا اور گزارش کی کہ ےارسول اللہ! ہمارا علاقہ کئی مہےنوں سے قحط کا شکار ہے۔ آپ کے پاس تھوڑی سی کھجورےں موجود تھےں۔ آپ نے فرماےا ساری کھجورےں تم لے لو۔ وہ تو بہت زےادہ کی امےد لے کر آےا تھا۔ بڑاماےوس ہوا اور چلانے لگا کہ مےں آپ کو بڑا سخی سمجھ کر حاضر ہوا تھا۔ آپ مےر ے ساتھ کےا سلوک کررہے ہےں الغرض جو کچھ منہ مےں آےا کہتا چلا گےا۔ اس بدتہذےبی پر صحا بہ کرامؓ کا طےش مےں آنا اےک فطری عمل تھا‘ انکے ہاتھ بے ساختہ تلواروں کے دستوں کی طرف گئے۔ آپ نے صحابہؓ کے تےور دےکھے تو فرماےا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہےں ےہ مےر امہمان ہے۔ مےں جانتا ہوں کہ اسکے ساتھ کےا سلوک کرنا ہے۔ صحابہ ؓ کے ہاتھ رک گئے اور وہ شخص بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر چلاگےا۔ کچھ دےر بعد اللہ رب العزت کے کرم سے کھجوروں سے لد ے بہت سے اونٹ آپ کے پاس آگئے اور کھجوروں کا ڈھےر لگ گےا۔ آپ نے پوچھا تمھارا صبح والا بھائی کہاں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ غصے کی حالت مےں مسجد سے نکل گےا تھا‘ آپ نے فرماےا‘ اُسے تلاش کرکے لے آﺅ۔ چنانچہ تلاش بسےار کے بعد اسے آپ کی بارگاہ مےں پےش کےا گےا۔ آپ نے اسے فرماےا کھجوروں کا ڈھےر دےکھ رہے ہو۔ جتنا چاہو لے لو‘ جب تم راضی ہوجاو¿ گے پھر کسی اور کو ملے گا اور اگر تم سارا بھی لے جاو¿ تو کوئی ممانعت نہےں۔ وہ خوشی سے پھولا نہےں سماےا‘ اپنے اونٹوں پر اتنا لاد لےا کہ ان کیلئے اُٹھنا دشوار ہوگےا۔ پھراس نے بڑی وارفتگی سے جناب رسالت مآب کی تعرےف شروع کردی۔ اسکے تعرےفی کلمات سن کر صحابہ کرام ؓ کا انقباض دور ہوگےا اور انکے چہر ے پھولوں کی طرح کھل اُٹھے۔ حضور نے ےہ منظر دےکھا تو صحابہ ؓسے پوچھا۔ صبح جب ےہ ناراض ہو رہا تھا، اگر تم اسے قتل کردےتے تو اس کا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔ انھوں نے عرض کی بلاشبہ جہنم مےں۔ آپ نے پوچھا اب اگر اسے موت آجائے تو اس کا مقام کہاں ہو گا۔ انھوں نے عرض کیا ےارسول اللہ! بلاشبہ جنت الفردوس کی بہارےں اسکی منتظر ہونگی۔ حضور نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرماےا۔ اے مےر ے صحابہؓ مےری اور تمھاری مثال اےسی ہے کہ جےسے کسی کا اونٹ بھاگ گےا۔ لوگ اسے پکڑنے کیلئے دوڑ ے لےکن وہ لوگوں نے آوازےں سن کر مزےد بدک کےا۔ اتنے مےں اس کا مالک آگےا۔ اسے تمام حالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا‘ اے لوگو! تم اپنی توانائےاں ضائع نہ کرو ےہ مےرا اونٹ ہے اور مےں ہی جانتا ہوں کہ اسے کےسے پکڑنا ہے۔ پھر اس نے سبز چارہ اپنی جھولی مےں ڈالا اونٹ کو مخصوص انداز مےں بلاےا‘ اونٹ نے مانوس آواز سنی تو فوراً پلٹ آےا۔ حضور نے فرماےا: تم بھی اس بھاگے ہوئے اونٹ کی طرح ہو اور مےں اس مالک کی طرح ہوں، مجھے معلوم ہے تمھےں کس طرح اللہ کی بارگاہ مےں لانا ہے۔