• news

منشور اور معقولیت؟


آج تک کسی حکمران نے پاکستان میں اپنے منشور پر عمل نہیں کیا؟ یہ سوال کس سے کیا جائے۔ دو دفعہ وزیراعلیٰ اور دو دفعہ وزیراعظم رہنے والے تیسری بار وزیراعظم بننے کے سو فیصد امیدوار نوازشریف نے منشور کا اعلان کیا۔ میں وہاں نہیں تھا مگر نوائے وقت میں خبروں کا انداز دیکھ کر سب کچھ سامنے آیا۔
منشور میں ایک جیسے دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ساری جماعتیں ایک جیسے منشور پیش کرتی ہیں۔ نوازشریف نے کہا ہے کہ دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔ آپ یقین کریں یہ بات پیپلز پارٹی کے منشور میں بھی ہو گی۔ شاید یہ بات اس طرح ہو اور اس کا اعلان رینٹل وزیراعظم راجہ صاحب بہت ”اعتماد اور افتخار“ کے ساتھ کریں کہ ہم ایک سال میں لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔ انہوں نے لوڈشیڈنگ کا وزیر بننے کے بعد بھی اعلان کیا تھا کہ چند مہینوں کے بعد دسمبر میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔
نوائے وقت میں یہ خبر خاص طور پر شائع ہوئی ہے کہ منشور میں کالاباغ ڈیم کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ صرف کالاباغ کے ذریعے ہی لوڈشیڈنگ ختم ہو سکتی ہے اور سستی بجلی لوگوں کو مل سکتی ہے۔ تین چوتھائی والی وفاقی حکومت کے وزیراعظم چاہتے تو اتفاق رائے بھی ہو سکتا تھا۔ تب ہر طرف مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ بھٹو سے لے کر زرداری تک کوئی حکومت کالاباغ ڈیم نہیں بنانا چاہتی تھی۔ کیونکہ بھارت اور امریکہ نہیں چاہتے ہیں تو پھر پاکستانی حکومت کیا کرے۔ نوازشریف کو پنجاب تک محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب اور وفاق کی حکومت ایک دوسرے کے مدمقابل ہے۔ اور یہ رجحان اچھا نہیں۔ پنجاب کو کالاباغ ڈیم کے حق میں بات کرنا چاہئے جبکہ باقی تینوں صوبے صرف اس لئے مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ پنجاب میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے موقعے پر سارے پاکستان کے سیاستدانوں کی مفاہمت ہوئی۔ صوبہ سرحد کا نام بھی خیبر پختون خوا مان لیا گیا تو یہ بھی منوایا جا سکتا تھا کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لئے ضروری ہے۔ وہاں نوازشریف بھی پوری طرح موجود تھے۔
اس کے علاوہ یہ بھی محسوس کیا گیا کہ مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ ایک سینئر صحافی کے سوال پر نوازشریف نے کہا کہ مسلم لیگیں اکٹھی نہ ہوں مگر مسلم لیگی تو ہماری یعنی میری لیگ یعنی ن لیگ میں جمع ہو رہے ہیں۔
بڑی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ان کی اکثریت مسلم لیگ ق سے مسلم لیگ ن میں آئی ہے، اس سے پہلے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس بلاک کی وجہ سے بنی ہے جو مسلم لیگ ق کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ جب نوازشریف اپنے منشور کا اعلان کر رہے تھے تو صدر جنرل مشرف کے کئی سابق وفاقی وزرا نوازشریف کے آس پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ طارق عظیم، زاہد حامد، امیر مقام، ہمایوں اختر، سمیرا ملک اور وزیروں سے بڑھ ایم این اے ماروی میمن اور روزینہ عالم موجود تھیں۔ ان کا خاص طور پر منشور کی تیاری کے لئے شکریہ بھی ادا کیا۔ جب 2002ءاور 2008ءکے الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ کے منشور کے اعلان میں بھی یہ لوگ پیش پیش تھے۔ ذکیہ شاہنواز، نجمہ حمید، خواجہ سعد رفیق۔
محترم مجید نظامی نے مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے کوشش کی جو تاریخ کا حصہ ہے۔ نوازشریف نے ان کی شخصیت کے لئے بھی کچھ احساس نہ کیا۔ جبکہ مرحوم پیر پگارا اور چودھری شجاعت نے مجید صاحب کو مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے سارے اختیارات دے دئیے۔ چودھری صاحب نے مجید صاحب کو صدر مسلم لیگ بننے کی گذارش بھی کر دی۔ موجودہ پیر پگارا لاہور تشریف لائے تو نظامی صاحب سے ملے اور ایک مسلم لیگ کی بات کی۔ حیرت ہے کہ ق لیگ کے وزرا اور ممبران اسمبلی تو مسلم لیگ ن کی طاقت بنائے جا رہے ہیں مگر ق لیگی قیادت سے بات کرنا بھی قبول نہیں کیا گیا۔ میرے خیال میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات اور کچھ دیر کے لئے شراکت اقتدار ہو سکتی ہے اور سیاست میں یہ ممکن ہے تو ق لیگ کی قیادت سے بھی بات ہو سکتی ہے۔ یہ ہوتا تو نوازشریف بہت سے معاملات میں آسودہ ہو جاتے۔ پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی مسلم لیگ کی حکومت ہوتی۔ چودھری صاحبان نوازشریف کی کابیناﺅں میں شامل رہے ہیں۔ اب وہ متحارب اور متصادم گروپ بن چکے ہیں۔
فوجی سربراہوں کی تعیناتی کے لئے میرٹ پہ فیصلے کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ہمیشہ یہ باتیں اقتدار سے باہر رہ کر محسوس ہوتی ہیں۔ اقتدار ملنے پر کچھ اور محسوس ہونے لگتا ہے۔ پھر چودھری نثار کے مشورہ پر انہیں عمل کرنا پڑ جائے گا کہ وہ ان کے اب بھی ہمراز ہیں۔ انہیں صدر زرداری حکومت میں وزیراعظم گیلانی کے سینئر وزیر کے طور پر جنرل مشرف سے حلف لینے پر بھی اعتراض نہ کیا گیا۔ پھر انہی کو اسی حکومت کا اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ ہمیشہ سیاستداں وزیراعظم نے جونیئر جرنیل کو آرمی چیف بنایا اور پھر اس نے مارشل لا لگایا۔ بھٹو صاحب جنرل ضیاءالحق کو لائے۔ نوازشریف جنرل مشرف کو لائے۔ جنرل علی قلی خان سے دو چار دفعہ فون پر بات ہوئی وہ کمال کا آدمی ہے۔ وہ کبھی مارشل لاءنہ لگاتا۔ مگر کچھ باتوں کا فیصلہ قادر مطلق کرتا ہے۔ جبکہ حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ ”قادر مطلق العنان ہیں“ اور وہ عبدالقادر بھی نہیں ہوتے۔
جنرل ایوب بھی جونیئر تھے۔ انہیں بھی کوئی سیاستدان ہی لایا۔ جنرل ایوب کے مقابلے میں مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا۔ ہمارے حکمران کتنے بدقسمت ہیں۔ ایوب خاں مادر ملت کے حق میں دستبردار ہو گئے ہوتے تو انہیں تاریخ ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد رکھتی۔ اور پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ سابق صدر ایوب خان نے بڑی منت سماجت سے مجید نظامی کو بلایا اور کہا کہ اب تو تم خوش ہو۔ مجید صاحب نے کہا کہ آپ حکومت ایک جرنیل کو دے گئے۔ سیاستدانوں کو دے کے جاتے تو ہم خوش ہوتے۔ مگر آجکل نظامی صاحب سیاستدانوں کے ”طرزِ جمہوریت“ سے بھی خوش نہیں ہیں۔
آخر میں ایک نوجوان ورکر لیڈر ہیومن رائٹس موومنٹ کے صدر ناصر اقبال اور سیکرٹری محمد رضا نے ایک بامعنی اور ذومعنی بیان دیا ہے۔ اس کے لئے ہمارے بڑے سیاستدانوں کو غور کرنا چاہئے۔ ”ملک کو مقبول کی بجائے معقول حکمران اور سیاستدان کی ضرورت ہے“۔ ہمارے سیاستدانوں میں معقولیت ہی تو نہیں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن