ایران:حزب اللہ سے ممکنہ جنگ اسرائیلی فوج کی جنگی مشقیں شروع
مقبوضہ بیت المقدس/بیروت(این این آئی)اسرائیلی فوج نے لبنان کے مسلح گروپ حزب اللہ کےخلاف کسی ممکنہ جنگ کےلئے اپنے جنوبی ریگستان کے ایک علاقے میں جنگی مشقیں شروع کر دیں۔ اسرائےلی میڈیاکے مطابق ریویم کے نزدیک ہونے والی ان جنگی مشقوں میں اسرائیلی ریزرو فورسز کے ہزاروں سپاہی حصہ لے رہے ہیں۔ ان جنگی مشقوں کا مقصد فوجیوں کو حزب اللہ کے ساتھ کسی بھی ممکنہ لڑائی کے لیے تیار کرنا ہے ان مشقوں میں اسرائیلی فوجیوں کو دفاعی لحاظ سے ایک ایسی اہم فرضی پہاڑی پر قبضہ کرنے کا کام سونپا گیا ہے جہاں سے نشیب میں واقع ایک لبنانی گاﺅں نظر آتا ہو ان جنگی مشقوں میں فوجیوں کے علاوہ ٹینکز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ حزب اللہ کے ساتھ 2006 میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اسرائیل نے اپنی دفاعی صلاحیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اب انٹیلی جنس اور نگرانی کے لیے جدید ترین ڈرونز ہیں کسی بھی زمینی حملے سے نمٹنے کے لیے بکتر بند گاڑیوں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے اسی طرح ان کے پاس راکٹ گرانے کے لیے جدید ترین ڈیفنس سسٹم بھی موجود ہے۔ اسلامی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور اسرائیلی فوج کے اعلی حکام کا خیال ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے اثرات ان کے ملک پر بھی پڑ سکتے ہیں۔اسرائیل کے ایک سینئر فوجی کمانڈر نے حزب اللہ کے ساتھ ممکنہ جنگ کے حوالے سے کہا کہ شام میں موجودہ صورت حال کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں نازک صورت حال اور اندرونی مسائل کی وجہ سے حزب اللہ اس وقت کسی قسم کی جارحیت کے لیے تیار نہیں ہے لیکن شام میں جاری خانہ جنگی اور اسرائیل کی ایران کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے صورت حال کسی بھی وقت جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اعلی فوجی منصوبہ سازوں کا خیال ہے کہ اقتدار پر بشارالاسد کی گرفت کمزور پڑ چکی ہے اور حزب اللہ اس صورت حال سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی خدشہ ہے کہ شام اپنے کیمیائی اور دیگر جدید ہتھیار بھی حزب اللہ کو منتقل کر سکتا ہے۔ ایران پر کسی اسرئیلی حملے کی صورت میں بھی حزب اللہ جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسرائیل کے ساتھ جنگ کے لیے ہر طرح کے ہتھیار موجود ہیں اور انہیں اپنے شامی اور ایرانی اتحادیوں سے ہتھیار لینے کی ضرورت نہیں ہے۔