مولا جٹ کی ”مکھو جٹی“ آسیہ بیگم کینیڈا میں انتقال کر گئیں
لاہور (کلچرل رپورٹر+ نیٹ نیوز) ماضی کی پنجابی اور اردو فلموں کی معروف ہیروئن اور ”مولا جٹ کی مکھو جٹی“ آسیہ بیگم کینیڈا میں گزشتہ روز انتقال کر گئیں۔ انکی عمر 65 سال کے لگ بھگ تھی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں ”پری چہرہ“ کے نام سے مشہور آسیہ 1951ءمیں بھارتی پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام فردوس تھا۔ پاکستان آنے کے بعد 70ءکی دہائی کے آغاز میں آسیہ نے لالی ووڈ میں قدم رکھا اور انہیں ہدایت کار شباب کیرانوی نے اپنی فلم انسان اور آدمی میں متعارف کرایا جس میں زیبا، محمد علی اور طلعت حسین انکے ساتھ تھے تاہم فلم ”دل اور دنیا“ میں مرکزی کردار سے فلم بینوں کو اپنا مداح بنا لیا۔ یہ ہدایت کار رنگیلا کی فلم تھی جس میں آسیہ نے اندھی لڑکی کا کردار ادا کیا۔ آسیہ نے کئی مقبول ترین فلموں میں بطور ہیروئن کام کیا۔ ”قانون“ میں بے مثال اداکاری پر انہیں بہترین اداکارہ کے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی لازوال فلموں میں یادیں، وعدہ، ایماندار، غلام، میں بھی تو انسان ہوں، پازیب، انسان اور آدمی، پیار ہی پیار، سہرے کے پھول اور جوگی، دل اور دنیا، وحشی جٹ، خان اعظم، آخری میدان، جٹ دا کھڑاک، غنڈہ ایکٹ، جٹ دا ویر، بھریا میلہ، چڑھدا سورج، نوکر وہٹی دا، حشر نشر، دو رنگیلے، شیر میدان دا، شریف بدمعاش، لاہوری بدمعاش، سہرے کے پھول، وحید مراد کے ساتھ تم سلامت رہو بہت مشہور فلمیں رہیں۔ پنجابی فلموں میں سلطان راہی، اردو فلموں میں وحید مراد اور ندیم کے ساتھ انکی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ اداکارہ جب پردہ سکرین پر پنجابی میں ڈائیلاگ بولتیں تو مداح دل تھام کر رہ جاتے۔آسیہ نے 209 پنجابی اور اردو فلموں میں اپنے فن کا لوہا منوایا تاہم مولا جٹ اور جیرا بلیڈ نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ”مولا بخش ان لندن“ ان کے کیریئر کی آخری فلم تھی۔ آسیہ نے اپنے دور کے تمام بڑے اداکاروں محمد علی، وحید مراد، ندیم، منور ظریف، رنگیلا، شاہد اور سلطان راہی کے ساتھ کام کیا۔ آسیہ نے 25 سال قبل اپنے ایک پرستار اور سونے ہیرے کے تاجر سے شادی کی اور کینیڈا چلی گئیں، پھر کبھی وطن واپس نہ آئیں۔ دریں اثناءاداکارہ آسیہ کے انتقال پر شوبز کے حلقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اداکارہ بہار بیگم نے کہا ہے کہ آسیہ بہت ہی خوبصورت اور ورسٹائل اداکارہ تھیں۔ اداکارہ و گلوکارہ شاہدہ منی نے کہا کہ آسیہ نہ صرف اچھی اداکارہ تھیں بلکہ اچھی انسان بھی تھیں۔ اداکارہ ثناءنے کہا کہ اداکارہ آسیہ کی فلمیں آرٹ کا بہترین نمونہ ہیں خصوصاً ان کی فلم ”مولاجٹ“ مجھے بہت پسند ہے۔ فلمساز اعجاز کامران نے کہا کہ آسیہ عروج کے دور میں ہی فلم انڈسٹری سے الگ ہو گئیں اور بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔ وہ بہت بڑی آرٹسٹ تھیں۔ ہدایت کار سید نور نے کہا ہے کہ مجھے آسیہ کے انتقال پر بہت دکھ ہوا ہے، وہ بہت بڑی اداکارہ تھیں۔