افغانستان میں فوج رکھنے کیلئے امریکہ طالبان گٹھ جوڑ کررہے ہیں : کرزئی
کابل (رائٹرز+اے ایف پی) افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے انکشاف کیا ہے کہ خطہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمتی مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ یہاں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک سال قبل تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات اب دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ان مذاکرات میں طالبان کے سینئر رہنما شرکت کر رہے ہیں۔ ادھر افغانستان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تردید کی کہ امریکہ سے مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے تعطل کا شکار ہونے کے بعد ان میں کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ادھر صدر کرزئی کے انکشاف کے بارے میں امریکہ کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ واضح رہے افغان طالبان کے ایک سال قبل امریکہ کے ساتھ قطر میں جاری مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوئے تھے جب امریکہ نے طالبان کے بعض مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افغان صدر نے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ اس وقت وزیر دفاع چک ہیگل کابل کے دورے پر ہیں۔ صدر کرزئی نے گزشتہ روز ہونے والے دو خودکش حملوں کے حوالے سے امریکہ اور طالبان پر الزام لگایا کہ وہ اپنے گٹھ جوڑ سے افغان عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آئندہ سال کے بعد بھی افغانستان میں قیام امن کیلئے غیر ملکی فوجوں کا قیام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دھماکے کرنیوالوں نے دراصل امریکیوں کی خدمت کی ہے، افغان صدر نے اتوار کو امریکی وزیر دفاع کے ساتھ ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس بھی منسوخ کردی جبکہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پریس کانفرنس سکیورٹی خدشات کی بنا پر منسوخ کی گئی ہے۔ صدارتی محل کے ایک عہدیدار نے نام بتائے بغیر کہا کہ پریس کانفرنس ”شیڈولنگ پریشر“ کے باعث منسوخ کی گئی ہے۔ وزیردفاع چک ہیگل کے ترجمان نے کہا کہ وزیر دفاع صدر کرزئی سے ملاقات کے منتظر ہیں جو اب بھی شیڈول پر ہے۔ پریس کانفرنس کی منسوخی کا فیصلہ بھی فریقین نے باہمی مشاورت سے کیا ہے۔