کامیابی کے لئے سب کو خوش رکھنے کی روش ]
پاکستان کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ایک روزہ میچ میں اختلافات اور گروپنگ کے حوالے سے ماہرین کے تمام خدشات سچ ثابت کر دئیے۔ ٹیم کے انتخاب سے لیکر تینوں شعبوں یعنی باﺅلنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ میں ہمارے کھلاڑی تقسیم ہوئے نظر آئے۔ پسند ناپسند نے ٹیم کا کمبی نیشن تباہ کر دیا۔ جنوبی افریقہ جیسی تجربہ کار ٹیم کے خلاف صرف دو فاسٹ باﺅلرز کے ساتھ میدان میں اُترنا نادانی تھی۔ پھر ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کر کے مصباح الحق نے دفاعی حکمت عملی کا پیغام دیا۔ یونس خان کو ٹیم میں شامل کرنے کے لئے ایک باﺅلر کی قربانی دینا پڑی۔ عمر اکمل پر اسد شفیق کو ترجیح دینا بھی مناسب فیصلہ نہ تھا۔ باﺅلنگ اور فیلڈنگ کے دوران پاکستانی کھلاڑی پریشان دکھائی دئیے، حکمت عملی اور کمبی نیشن کا فقدان صاف ظاہر تھا۔ چار آف سپنرز جنوبی افریقہ کے بلے بازوں کو مار دھاڑ سے باز نہ رکھ سکے اور انہوں نے 315 رنز کا پہاڑ جیسا سکور بنا دیا۔ ٹیم سلیکشن میں خامیاں صاف ظاہر تھیں مگر سوال یہ ہے کہ ٹیم کے انتخاب میں کس کا کیا کردار تھا۔ کپتان مصباح الحق اس کے ذمہ دار ہیں تو کوچ ڈیو واٹمور دیگر ذمہ داران کیا کر رہے تھے؟
پاکستانی باﺅلرز نے انتہائی بُری باﺅلنگ کی، لائن لینتھ کے ساتھ باﺅلرز کا اعتماد بھی گڑبڑایا ہوا تھا۔ رہی سہی کسر فیلڈرز نے پوری کر دی۔ بُری فیلڈنگ اور کیچ چھوڑ کر ہم نے خود بڑے سکور کا موقع فراہم کیا۔ اس موقع پر جب جنوبی افریقہ کے اِن گرام اور ڈی ویلیئرز ہمارے باﺅلرز کی جم کر پٹائی کر رہے تھے، کپتان مصباح الحق کہیں نظر نہیں آئے۔
بیٹنگ میں بھی پاکستان ٹیم کا کمبی نیشن درست نہیں تھا۔ یونس خان، اسد شفیق، شعیب ملک بُری طرح ناکام رہے۔ کپتان مصباح الحق نے کچھ دیر کریز پر ضرور گزارا مگر وہ بھی بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے۔ شاہد آفریدی جو آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرنے آئے انہوں نے 16 گیندوں پر برق رفتار 34 رنز بنائے مگر وہ محض اپنی ذات کے لئے کھیل رہے تھے اور صاف ظاہر تھا کہ اُنہیں ٹیم کی ہار جیت سے کچھ لینا دینا نہیں وہ محض اپنی جگہ پکی کرنا چاہتے ہیں۔ اور اُنہوں نے باﺅلنگ میں شاید اس سے بُری کارکردگی کبھی نہیں دکھائی۔ وہ باﺅلر کی حیثیت سے ٹیم میں شامل نہیں۔ بیٹسمین کی حیثیت سے جو بھی ہے وہ معیاری کرکٹ نہیں کھیل پائے۔
ماہرین کی کوئی نہیں سن رہا کہ کامران اکمل کو آخری نمبروں پر بیٹنگ کرنے کے لئے بھیج کر ایک طرح سے اُنہیں ضائع کیا جا رہا ہے۔ اُنہیں اوپنر یا ون ڈاﺅن پوزیشن پر بھیجنا چاہئے تاکہ ٹیم کا کمبی نیشن ٹھیک ہو سکے اور کامران کو بھی صلاحیتوں کے اظہار کا صحیح موقع ملے۔ ہمیں مصلحتوں سے آزاد ہو کر ”ٹیم پاکستان“ تشکیل دینی چاہئے۔ سب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کرنا ضروری ہے۔ یہ روش ہماری کرکٹ کو لے ڈوبے گی۔
پہلے ایک روزہ میچ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان ٹیم میں گروپ بندی عروج پر ہے، اور کھلاڑی محض اپنی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ٹیم کے طور پر یک جان ہو کر کھیلنے کا جذبہ ہمارے کھلاڑیوں میں قطعی نظر نہیں آ رہا۔ یوں لگ رہا ہے کہ دو کپتانوں کا تجربہ پاکستان کرکٹ کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستان کی کرکٹ ایک بار پھر انتہائی تشویشناک صورت حال کا شکار ہو گئی ہے۔
سیریز کے آئندہ میچوں میں پاکستان ٹیم کے حالات یہی رہے تو نتائج بھی یہی رہیں گے، کیونکہ کرکٹ میں کامیابی کے لئے ٹیم سپرٹ لازمی چیز ہے جو اس وقت پاکستان ٹیم میں کہیں نظر نہیں آ رہی۔