تحریک پاکستان و آزادی کشمیر کے رہنماء۔ کے ایچ خورشید
خطہ کشمیر کا نام آتے ہی رئیس احرار چوہدری غلام عباس کے بعد مجاہد اول سردار محمد عبدلقیوم خان ، سردار محمد ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کے نام نمایاں نظر آتے ہیں اس طرح تحریک پاکستان کی جدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح اور کے ایچ خورشید کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ کے ایچ خورشید کی خدمات کو جتنا بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے۔ قائد اعظم کی کشمیریوں سے محبت لازوال تھی۔ آپ نے کشمیر کے طویل دورے کیے۔ 1944ءمیں دورہ کشمیر کے دوران آپ نے کے ایچ خورشید کی تقریب اور بات چیت کی مثبت سرگرمیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنانے کی پیشکش کی جو کہ کشمیریوں کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس وقت آپ کشمیر مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری تھے۔ 1944ءسے 1947ءتک تحریک پاکستان کے سرگرم دور میں پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے شانہ بشانہ رہے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان بنانے میں میری بہن فاطمہ جناح ، خورشیدحسن خورشید اور میرے ٹائپ رائٹر کا اہم کردار ہے۔ قائد اعظم کا کشمیری عوام سے محبت کا دوسرا ثبوت یہ کہ آپ نے جن لوگوں کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا ان میں کشمیری رہنمائ، رئیس احرار، چوہدری غلام عباس بھی شامل تھے۔ کے ایچ خورشید سچی اور کھری بات کرنے کے عادی تھے۔ لاہور میں کشمیر سوشل ویلفیئر کی تقریب میں جب بار بار کہا گیا کہ تنظیم غیر سیاسی ہے تو آپ نے اپنے خطاب میں برملا کہا کہ مجھے بلایا گیا ہے یہ غیر سیاسی کیسے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ میرا اوڑھنا ، بچھونا، اٹھنا ، بیٹھنا سیاست ہے۔ 1946ءمیں قائد اعظم کی قیادت میں 4 رکنی وفد برطانیہ گیا تھا اس میں نوابزادہ لیاقت علی خاں، ممتاز حسن اور کے ایچ خورشید شامل تھے۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنے والدین سے ملنے کشمیر گئے تھے ۔ گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیئے گئے۔ قائد اعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے واحد خط وزیر اعظم بھارت، جواہر لعل نہرو کو اپنے ہاتھ سے لکھا کہ میرے پرائیویٹ سیکرٹری کو رہا کر کے بھیج دیا جائے۔ اس پر نہرو نے اپنی روایتی عیاری سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ کے ایچ خورشید کو بھارت نے نہیں حکومت کشمیر نے گرفتار کیا ہے۔ پھر 1949ءمیں گلگت کے گرفتار گورنر گھنسارہ سنگھ کے تبادلے میں رہائی ملی۔ پاکستان آنے کے بعد لاہور میں ہفت روزہ انگریزی اخبار گارڈین کا اجراءکیا۔ اس وقت نوائے وقت کے بانی حمید نظامی نامور صحافی آغا شورش کشمیری ، نامور صحافی و شاعر پاکستان ٹائم کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض کے ساتھ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر کے رکن رہے۔ مادر ملت کے حکم پر اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن چلے گئے۔ 1953ءمیں بار ایٹ لاءکی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان واپس آئے اور وکالت شروع کی۔ 1958ءمیں چوہدری غلام عباس کی خواہش پر حکومت آزاد کشمیر کے پبلسٹی ایڈوائزر مقرر کیا۔ 1957ءمیں قائد کشمیر چوہدری غلام عباس کے ساتھ سیز فائرلائن توڑنے کی کوشش کی تو کے ایچ خورشید سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اور چوہدری غلام عباس اور ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1958ءمیں ایوب کے مارشل لاءکے بعد تمام کشمیریوں کو رہا کر دیا گیا۔ 1959ءمیں چوہدری غلام عباس کی تجویز پر آزاد کشمیر کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ آپ نے اپنے دورے حکومت میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے ، تعمیر و ترقی ملازمین کو امانت، دیانت، خدمت کے اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنایا۔ 1962ءمیں بی ڈی ممبر نظام کے تحت دوبارہ 5 سال کے لئے صدر منتخب ہوئے۔ یہ ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس سال شیخ عبداللہ بھی پاکستان آئے انہوں نے اپنی جماعت لبریشن لیگ بنائی اور آزاد حکومت کو علیحدہ تسلیم کرنے کا دلفریب نعرہ لگایا لیکن اس کے لئے وہ پاکستان و آزاد کشمیر میں عوامی حمایت حاصل نہ کر سکے کیونکہ اس دلکش نعرہ میں بذریعہ الحاق پاکستان کی کمزوری کا اندیشہ تھا۔ اس نعرے میں خود مختار کشمیر کی بو نظر آتی تھی۔ جبکہ قائد اعظم کے سیکرٹری اور تحریک پاکستان کے کارکن سے ایسی توقع نہ تھی۔ 1964ءمیں حکومت پاکستان سے اختلاف کی وجہ سے صدر کے عہدے سے معذول کر کے گرفتار کرلیا گیا۔ رہائی کے بعد کے ایچ خورشید نے ایوب خان کے نظام کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں بھر پور تحریک چلائی ۔ مادر ملت کے صدارتی انتخاب میں آپ کو چیف پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ 1985ءمیں لاہور سے ممبر کشمیر اسمبلی (وادی) بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔ کشمیر اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے۔ انہوں نے بطور صدر آزاد کشمیر اور سیاسی رہنماءکے آزاد کشمیر کے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کیا۔ کشمیریوں کے تشخض کو ابھارا۔ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔انکی اہلیہ ثریا خورشید جو کہ خود بھی علمی و ادبی مقام رکھتی ہیں نے انکے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں لاہور چھاﺅنی میں کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا کوئی ذاتی مکان نہ تھا۔ بڑے باغ و بہار شخصیت و محفل کی جان تھے۔ انکی موت مہنگی ترین گاڑی میں نہیں بلکہ وزیر آباد کے مقام پر ایک حادثے میں پبلک ٹرانسپورٹ میں ہوئی تھی۔