مجید نظامی عہد ساز صحافی
کہتے ہیں کہ ہر صدی میں ایک نابغہ روزگار شخصیت کا ظہور ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے عہد میں، اپنی صدی نے جو ایک سچا، معتبر، ہردلعزیز انسان دیکھا وہ جناب مجید نظامی ہیں۔ بیگم صفیہ اسحاق نے نظامی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وہ حق بجانب ہے اور بیگم صفیہ اسحاق کی محبتوں، خلوص، چاہتوں، ریاضتوں کا ثبوت ہے۔مجید نظامی صاحب محض ایک صحافی نہیں، ان کی شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں۔ وہ صحافی، سربراہ، چیف ایڈیٹر، منتظم، اُستاد، ممتحن، محقق اور نقاد سبھی کچھ ہیں۔ اس کے علاوہ ایک شفیق باپ، شوہر، بیٹے، بھائی، دوست، رفیق، باس اور ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ کسی ادارے کی طاقت اور کشش اس کے مالک یا باس کی شخصیت کی وجہ سے ہوتی ہے ورنہ اکثر ادارے کچھوے کی چال چلتے ہیں لیکن ترقی اور نیک نامی صرف ادارے کے سربراہ کی وجہ سے ملتی ہے، اسی لئے نوائے وقت جو ایک بار آ جائے وہ یہاں سے جانے کا نام نہیں لیتا۔ نظامی صاحب کا طریقہ کار ایک استاد کے ساتھ ساتھ ممتحن کا بھی رہا ہے۔ وہ ہر خبر، فیچر، کالم، انٹرویو پر گہری نظر رکھتے ہیں اور جو کچھ ان کی میز سے اشاعت کے لئے جاتا ہے، وہ سب ایڈیٹ ہو کر جاتا ہے۔ وہ ہر لفظ کی تحقیق کرتے ہیں۔ اس طرح وہ محقق کے ساتھ نقاد بھی ہیں۔ ان کی نظر تنقیدی ہے۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے نقاد کی طرح ہر تحریر کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بات بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ نظامی صاحب میں کمال کا حس مزاح ہے۔ نظامی صاحب خوبصورت اور نفیس مزاح سے محظوظ ہوتے ہیں۔ موڈ میں ہوں تو خود بھی شگفتہ بیانی سے کام لیتے ہیں بلکہ انہیں طنز و مزاح میں بڑی مہارت ہے۔ سچے، کھرے، بہادر، محنتی، لائق، ذہین اور حاضر جواب لوگ انہیں پسند ہیں۔ میں بہادر اور محنتی شروع سے تھی لیکن حق گوئی اور ڈٹ جانا میں نے نظامی سے سیکھا۔ یہ میرے کیریئر کے ابتدائی دن تھے۔ میں نے انٹرویو کیا تو وزیراعظم ہاﺅس سے فون آ گیا کہ جی آپ انٹرویو میں 2 سوال کاٹ دیں۔ میں نے کہا کہ ایک خبر تو آج روزنامہ جنگ میں چھپ چکی ہے۔ میں یہ انٹرویو کل ایڈیشن میں دے رہی ہوں لیکن وزیراعظم ہاﺅس سے مجھے دھمکی دی گئی کہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ ایڈیشن ڈاک میں جا چکا تھا۔ میں نظامی صاحب کے پاس پہنچی۔ نظامی صاحب نے کہا کہ آپ کے پاس ثبوت ہے۔ میں نے کہا کہ جی انٹرویو ٹیپ کیا تھا۔ نظامی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، گھر جا کر کھانا کھائیں، فلم دیکھیں اور سو جائیں، آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔“ دونوں سوال اسی طرح اگلے دن شائع ہوئے اور کچھ نہ ہوا۔ میں نے بےنظیر بھٹو کا انٹرویو شائع کیا تو میاں شہبازشریف غصے میں بھرے ہوئے دفتر ہی آ گئے اور کہنے لگے کہ دیکھئے عارفہ صبح خان نے ہمارے بارے میں کیا کیا لکھ دیا ہے۔ نظامی صاحب نے میاں شہبازشریف سے کہا کہ ٹھنڈا پانی پئیں اور غصہ ٹھنڈا کر لیں کیونکہ عارفہ صبح خان نے آپ کے متعلق کچھ نہیں کہا.... جو بھی کہا ہے کہ یہ بےنظیر بھٹو کا مو¿قف ہے، آپ کو گلہ عارفہ صبح خان سے نہیں بےنظیر بھٹو سے کرنا چاہئے، چنانچہ شہبازشریف اسی وقت ٹھنڈے ہو گئے۔جب میں نے بینظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان کا انٹرویو کیا، جس میں وہ جوش خطابت میں کہہ گئیں کہ بی بی کو اگر جمہوریت کے لئے شوہر کی قربانی بھی دینی پڑی تو دریغ نہیں کریں گی۔ اس بات کا مقصد صرف یہ تھا کہ بےنظیر بھٹو کو اپنے ہر رشتے اور ہر خوشی پر اپنی قوم اور ملک کی عزت اور سالمیت عزیز ہے۔ بہرحال اس خبر کو عباس اطہر تک نے اپنے انداز میں خوب اٹھا کر لگایا۔ اگلے دن ناہید خان نے تردید کی اور مجھے کہا کہ میں نے تو یہ کہا ہی نہیں۔ اگلے دن نوائے وقت میں بہت بڑی تردید شائع ہو گئی تو میں نے نظامی صاحب سے گلہ کیا کہ ایک بات ناہید خان نے کہی ہے کہ لیکن یہ تردید اشتہاری انداز میں شائع کی گئی ہے۔ نظامی صاحب نے کہا کہ آپ کے پاس ثبوت ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی ثبوت نہیں ہے، نہ ٹیپ ریکارڈر تھا اور نہ ہی انٹرویو ٹیپ کیا۔ نظامی صاحب نے پوچھا کہ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن کیا یہ ناہید خان نے کہا تھا۔ میں نے کہا کہ 100 فیصد کہا تھا لیکن میرے پاس ثبوت نہیں ہے۔ نظامی صاحب نے کہا کہ اگرچہ آپ بالکل نئی ہیں اور آپ کے پاس ثبوت بھی نہیں لیکن مجھے آپ پر پورا یقین ہے، آپ کے لہجے میں سچائی ہے۔ اس موقع پر شاہد رشید صاحب نے نظامی صاحب کو بعد میں بتایا کہ میں نے خود عارفہ صبح خان کو ناہید خان سے فون پر باتیں کرتے سنا ہے۔ عارفہ صبح خان نے حرف بہ حرف صحیح لکھا ہے۔ بعد میں ڈپٹی ایڈیٹر نے اپنے طور پر تصدیق کی تو پیپلزپارٹی کے ایک اہم عہدیدار نے بتایا کہ میں اس وقت کھانے پر موجود تھا جب یہ گفتگو ہوئی۔ ناہید خان نے ایسا ہی کہا تھا لیکن ناہید خان نے نیک نیتی سے کہا تھا۔ خیر نظامی صاحب کو عباس اطہر صاحب نے بھی ناہید خان سے بات کر کے بتایا کہ یہ بات ہوئی تھی۔ اس طرح نظامی صاحب کو خودبخود دفتر کے ہی تین سرکردہ افراد سے ثبوت مل گئے۔ نظامی صاحب نے مجھے اگلے دن بلا کر شاباش دی اور میرے کام کو سراہا۔ناہید خان نے مجھے بتایا کہ زندگی میں پہلی بار بینظیر بھٹو مجھ پر برس پڑی ہیں اور یہ کہ وہ بہت ناراض ہوئی ہیں۔ میں نے ناہید خان سے کہاکہ اگر آپ کو اس خبر سے اتنی تکلیف اٹھانی پڑی ہے تو مجھے دکھ ہے اور میں اس کا ازالہ اسی طرح کرسکتی ہوں کہ میں بینظیر بھٹو کو یہ بتا دیتی ہوں کہ آپ نے یہ بات بدنیتی سے نہیں بلکہ خیرخواہی سے کہی تھی۔ کچھ دن بعد اتفاق سے بینظیر بھٹو آئیں۔ جب بینظیر بھٹو کو پتہ چلا کہ وہ خبر میں نے لگائی تھی تو آفرین ہے اس دختر مشرق پر، وہ مجھے نہایت محبت سے ملیں اور سارا دن اپنے ساتھ رکھا۔ مطلب یہ کہ نظامی صاحب کی تربیت نے خودداری اور حق گوئی میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے، یہ نظامی صاحب کے اعتماد اور یقین کا نتیجہ ہے کہ آج تک میں نے ڈرنا نہیں سیکھا۔