ہماری قوم میں تحمل اور برداشت کا فقدان
لاہور کی مسیحی بستی جوزف کالونی میں جو کچھ ہوا اس سے پاکستان کا عالمی برادری میں بدترین امیج سامنے آیا ہے۔ نبی کریم سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ اہلِ ایمان حضرت عیسیٰؑ ،حضرت موسیٰؑ سمیت کسی نبیؑ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ نبی آخرالزمان کی شان میں گستاخی پر تو اہل ایمان کٹ مرنے پر اتر آتے ہیں۔ یہی ایک مسلم کے ایمان کا تقاضا ہے۔ پاکستان کے آئین میں شاتم رسول کی سزا مقرر ہے۔ ثبوت موجود ہوں تو آئین کی شق 295سی کے شکنجے سے توہین رسالت کا مرتکب بچ کر نہیں نکل سکتا۔ جوزف کالونی کے ”ساون“ نے مبینہ طور پر اپنے دوست کے سامنے توہین رسالت کا ارتکاب کیا اس وقت دونوں نے شراب پی رکھی تھی۔ دونوں کے مابین جھگڑے کی اطلاعات بھی ہیں۔ توہین رسالت کی باتیں محلے میں ”ساون “کے دوست نے پھیلائیں جس سے مسلمان حلقوں میں بے چینی فطری امر تھا۔ تاہم پولیس نے بروقت کارروائی کرکے ساون کو حراست میں اور بستی کو مسیحیوں سے خالی کرا لیا۔ پولیس کو اندازہ ہی نہ ہوا اس معاملے کو اچھالنے والوں نے لوگوں کو کس قدر مشتعل کر دیا کہ وہ پولیس کی مختصر سی جمعیت کو خاطر میں نہ لائے اور ڈیڑھ سو گھروں کو آگ لگا اپنی طرف سے معرکہ مار لیا(پولیس کا پوری بستی کو خالی کرانا بھی معنی خیز ہے اور آج ہر ذی ہوش کی زبان پر ایک سوالیہ نشان کی طرح ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ دو قبضہ مافیا گروپوں کی یہ اندرونی لڑائی کی وجہ سے بستی خالی کرائی گئی تاکہ یہاں پر نئی مارکیٹ بنائی جا سکے اور قرین قیاس یہی ہے کہ بلوے اور آگ لگانے کے وقت کوئی بھی شخص وہاں موجود نہ تھااور بستی کا اس طرح خالی کرانا اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے)۔ قانون کی موجودگی اور ملزم کے زیر حراست ہونے پر ایسے اشتعال کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ خدا کا شکر ہے کہ بستی انسانوں سے خالی تھی ورنہ سینکڑوں کو جلا دیا جاتا۔ اس سانحہ سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی اور بطور قوم ہمارا عدم برداشت کا رویہ سامنے آیا ہے۔ میں ان دنوں بغرض علاج اور کاروباری مصروفیات ،یورپ آیا ہوا ہوں۔ جوزف کالونی کے اس واقعے کی وجہ سے میرے سبھی یورپین دوست مجھ سے کھچے کھچے اور خفا خفا سے ہیں اور پاکستان میں بھی میرے مسیحی دوستوں کا حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ مذہبی رہنماﺅں نے اس سانحہ کی شدید مذمت کی ہے وہ ایک حوصلہ افزا امر ہے کہ شدت پسندوں کی کوئی سرپرستی نہیں کر رہا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ الزام ثابت ہونے پر ملزم کو قانون کے تخت سزا دی جائے۔اگر مدعی نے یہ سب ذاتی لڑائی کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ہے تو اسے وہی سزادی جائے جو جرم ثابت ہونے پر ملزم کو ملتی ہے اور جلاﺅ گھیراﺅ کرنے والوں کیلئے تو کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔ انکی جائیدادیں بیچ کر متاثرین کا نقصان پورا کیا جائے۔اس واقعہ کے رد عمل میں جو کچھ اگلے روز ہوا، جلاﺅ گھیراﺅ نجی و قومی املاک کو نقصان، وہ بھی پہلے روز کی طرح قابل مذمت ہے۔لفظ اقلیت کی میں نے ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ لاہور کے تقریباً ہر قابل ذکر چرچ میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کی اور کرسمس کے موقع پر کیک کاٹے ہیں۔ مسیحی بھائیوں سے ہمیشہ کہا ہے آپ مذہبی اقلیت ہو سکتے ہیں، قومی اقلیت نہیں اس لیے اپنے آپ کو قومی دھارے میں شامل کیجئے۔ مجھے یاد ہیں وہ دن جب بچپن میں ہم مسلمان دوست عیسائی دوستوں کے ساتھ کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر ہونے والے سٹیج پروگراموں میں حصہ لیتے تھے اور اسی طرح مسیحی دوست ہمارے ساتھ عیدین کی تقریبات اور شب برات کے پروگراموں شریک ہوتے تھے۔پاکستان کے قیام میں بھی اس وقت کی مذہبی اقلیتوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ پیپلزپارٹی ڈیموکریٹک اور لبرل جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ پہلے مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب کے وزیر کی تعیناتی بھی پی پی نے کی۔ وہ بھی سچ ہے کہ اس وزیر کو اسلام آباد کی سڑکوں پر قتل کر دیا جاتا ہے لیکن پیپلزپارٹی کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ پاکستان میں مذہبی جنونی کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں جتنی بھی اقلیتیں ہیں اس سے زیادہ پاکستانی یورپی ممالک میں نسل در نسل آباد ہیں۔ جہاں ہمارے گھروں کو آگ نہیں لگائی جاتی، جہاں ہمیں زندہ رہنے کیلئے اکثریت کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ہمارے کھانے کے برتن بھی وہی ہیں، جس میں وہ خود کھاتے ہیں ۔ اگر پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ستم جاری رکھا گیا تو اور یقینا لاکھوں پاکستانی اور کروڑوں مسلمان جو یورپ میں مقیم ہیں اور اربوں کھربوں کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں ان کی زندگی یورپی ممالک میں اجیرن بنا دی جائے گی کیونکہ ”تنگ آمد کا نتیجہ بجنگ آمد ہوتا ہے۔“ماضی میں ایک آمر نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے مذہب کو استعمال کیا اور نبی کریم صرف سرور اسلام نہیں بلکہ سرور کائنات ہیں۔ آپ کی تعظیم اور تکریم سب پر واجب ہے۔ آپ رحمتہ اللعالمین ہیں۔ دوسری طرف میں ایسے مسیحی لوگوں کو جانتا ہوں جن کے گھر میں اگر8افراد ہیں تو اس گھر کے ایڈریس پر 8مختلف این جی اوز رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے آرئین کے آرٹیکل 295سی کو ایک بیوپار اور تجارت بنا لیا ہے۔ اکثر اوقات ان کے درمیان مافیا طرز کی لڑائی بھی چھڑ جاتی ہے تاکہ ان کو یورپ کے کلیساﺅں سے فنڈز مل سکیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب اگر سانحہ گوجرہ کے ملزموں کو سزائیں دلا دیتے تو آج بادامی باغ والا سانحہ نہ ہوتا۔ پنجاب حکومت اور مرکزی حکومت نے پانچ ، پانچ لاکھ امدادکا اعلان کیا ہے۔ کراچی سانحہ عباس ٹاﺅن کے متاثرین کو سانحہ بادامی باغ کی طرح مکان کیوں نہیں دیئے گئے؟ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے آپس کے اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکن کسی اور کو حق حاصل نہیں کہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرے۔ ہمیں یورپ، بھارت اور عرب ممالک کو اپنے اندرونی معاملات سے دور رکھنا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا۔ وگرنہ ہمارا دشمن مگرمچھ کی طرح منہ کھولے ہماری ایسی ہی غلطی کی تاک میں بیٹھا ہے:ہم خود سر ہیں کہ مذہب کے پہن کر چوغےاپنے ہی آقا کے فرمان کو بھلا دیتے ہیںمیری سرکار نے بخشی ہے جنہیں جان کی امانان کے گھر بار بھی چن چن کے جلا دیتے ہیں