مستعفی ہونے سے انکار‘رئیسانی ڈٹ گئے فضل الرحمن سے ملاقات، شجاعت سے رابطہ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی ہنگامی طور پر ملاقات کے لئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے پاس پہنچ گئے اور (ق) لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین سے بھی رابطہ کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے ان سے بلوچستان کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے مشاورت کی۔ رئیسانی نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ان پر ایوان صدر کا دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلم رئیسانی کی جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت کا امکان ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان حکومت کی گورنر راج ختم ہونے کے بعد بحالی پر سیاسی بحران حل نہیں ہوا بلکہ اسلم رئیسانی کی جانب سے مستعفی نہ ہونے پر پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان میں اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ اسلم رئیسانی ڈٹ گئے۔ قیادت کو دوٹوک طور پر کہہ دیا کہ مستعفی نہیں ہونگے۔ بلوچستان میں مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کے لئے مشاورت کے لئے نواب رئیسانی، مولانا فضل الرحمن کے پاس پہنچ گئے۔ سینئر وزیر مولانا عبدالواسع بھی اس موقع پر موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس دوران چودھری شجاعت حسین کو فون کیا اور ان سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی موجودگی میں صوبے کے سیاسی حالات پر مشاورت کی۔ اس معاملے پر جے یوآئی (ف)، پی این پی (عوامی) اور (ق) لیگ کی مشترکہ حکمت عملی اور صوبے میں پیپلز پارٹی کو تنہا کرنے کوششوں کا امکان ہے۔ بلوچستان میں گورنر راج کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد صوبے میں ایمرجنسی کے نفاذ یاگورنر راج میں توسیع کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ادھر مولانا عبدالواسع، سید احسان شاہ، اسد بلوچ، نواز کاکڑ وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی اور محمد خان شیرانی سے مشاورت کےلئے اسلام آباد پہنچ گئے۔ آئینی بحران میں مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر سید خورشید شاہ جے یو آئی (ف) کے صوبائی امیر سنیٹر مولانا محمد خان شیرانی سے مذاکرات کے لئے ان کی رہائش گاہ گئے، مولانا عبدالواسع، سید احسان شاہ، اسد بلوچ، نواز کاکڑ بھی وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی اور محمد خان شیرانی سے مشاورت کےلئے اسلام آباد پہنچ گئے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر نواب محمد اسلم رئیسانی استعفیٰ نہیں دیں گے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی پڑے گی جس کے لئے اسمبلی کا اجلاس بلانے کے ساتھ ساتھ نئے قائد ایوان کو لانے میں کم سے کم 15 سے 20 دن درکار ہوں گے، نگران حکومت اسی سیٹ اپ کے ذریعے بنایا جائے گا تو اس میںنواب محمد اسلم رئیسانی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ ان کے مشاورت کے بغیر کوئی بھی نگران حکومت اور کابینہ تشکیل نہیں پا سکے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام اور پےپلز پارٹی کی قیادت نواب محمد اسلم رئیسانی کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ازخود استعفیٰ دے دیں اور ان کی جو بھی شرائط ہےں وہ تسلیم کی جائیں گے۔ جمعیت علمائے اسلام کی کوشش ہے کہ وہ نواب محمد اسلم رئیسانی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرے کیونکہ جے یو آئی آنے والے انتخابات میں تاخیری حربے ڈالنے کا الزام اپنے سر لینا نہیں چاہتے۔ این این آئی کے مطابق بلوچستان میں گورنر راج کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد سول سیکرٹریٹ میں منسٹرز بلاک میں وزرا کے دفاتر پر بدستور تالے لگے رہے، کسی وزیر نے اپنے دفتر کا تاحال رخ نہیں کیا۔ بلوچستان میں گورنر راج کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد سول سیکرٹریٹ میں منسٹر بلاک میں کوئی وزیر یا ان کا عملہ اپنے دفتر نہیں پہنچا جبکہ بعض وزرا کے دفاتر پر دو، دو تالے لگے ہوئے بھی دیکھے گئے، سیکرٹریٹ ذرائع کے مطابق ایک تالہ وزرا کے سٹاف جبکہ دوسرا تالہ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی جانب سے لگایا گیا ہے دو ماہ قبل گورنر راج کے نفاذ کے بعد محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی جانب سے وزرا سے تمام عملہ بھی دستبردار کر لیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی جس پر نگران حکومت کی تشکیل اور بلوچستان میں رئیسانی حکومت کی بحالی کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے ملاقات میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی جانب سے 16 مارچ کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے اور نگران وزیر اعلیٰ کا انتخاب آئین کے مطابق یقینی بنانے کےلئے مولانا فضل الرحمن کو کردار اد اکرنے کی اپیل کی۔ ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمن نے جے یو آئی (ف) بلوچستان کے امیر مولانا محمد خان شیرانی سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کر کے صوبے کی سیاسی صورتحال اور وزیر اعلی اسلم رئیسانی سے 16 مارچ کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے رابطہ کرنے کے لئے کہا۔ ذرائع کے مطابق خورشید شاہ نے نگران وزیراعظم کے لئے حکومت کے تین ناموں ڈاکٹر حفیظ شیخ‘ ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس میر ہزار خان کھوسو کے ناموں پر بھی اعتماد میں لیا۔
رئیسانی / فضل الرحمن